وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
اور جو کوئی رسول ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا ہے اس کی طرف ہم نے یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے سو مجھے ہی پوجو۔ (ف ١)
(ف1) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ فطرت کی آواز کیا ہے ؟ وہ کون سا پیغام ہے جس کوتمام انبیاء نے مشترکہ طور پر پیش کیا ، وہ کون سی دعوت ہے جس کو سب پیغمبروں نے متحدہ شکل میں ظاہر کیا ، وہ ایک خدا کی پرستش اور عبادت ہے ، آدم (علیہ السلام) سے جناب محمد (ﷺ) تک سب لوگوں نے اس روشن حقیقت کو نمایاں کیا ، کہ خدا ایک ہے مالک وآقا ایک ہے محبوب ودوست ایک ہے اور وہ ذات ذی الجلال ایک ہے ، جس کے سامنے جھکنا چاہئے ۔ غور فرمائیے کس قدر صحیح ، روشن اور عملی تعلیم ہے ، ایک خدا کی پرستش کے معنی یہ ہیں ، کہ تمام کائنات کو اپنے قدموں پر جھکا لیا جائے ، اور بجز خدا کی کبریائی اور جلال کے اور کسی کی عظمت کا اعتراف نہ کیا جائے خدا کو ایک ماننے کے یہ معنی ہیں کہ ایک خدا کو تو حاکم مطلق جانو ، اور باقی دنیا کی ہر چیز اور ہر قوت کو محکوم سمجھو ، خدا کو ایک ماننے کے عقیدہ میں انسانی شرف ومجد کا راز پنہاں ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم اس عقیدہ کو بار بار مختلف پہلوؤں سے ذکر فرماتا ہے ، اور کہتا ہے کہ لوگو ! شرک کی ظلمتوں اور تاریکیوں سے نکلو ، اور توحید کی وادیوں میں قدم زن ہوجاؤ ، یہاں نور برکت اور عزت وشرف کے چشمے بہتے ہیں ، مگر مشرکین ہیں کہ ان کے دلوں کی تاریکی انہیں اس روشن حقیقت کو دیکھنے نہیں دیتی ، وہ زندہ اور حی وقیوم خدا کو چھوڑ کر پتھروں کے سامنے جھکتے ہیں ، وہ انسان اور افضل الاکوان پیکر اپنی بزرگی وعظمت کی توہین کرتے ہیں ۔