سورة مريم - آیت 26

فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سو کھا ، اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ ، اور جو تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہیو کہ میں نے خدا کے لئے روزہ کی منت مانی ہے ، سو آج میں ہرگز کسی آدمی سے نہ بولوں گی ۔ (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) حضرت مریم (علیہ السلام) درد زہ کی وجہ سے بےقرار ہوگئیں ، اور جنگل کی طرف نکل کھڑی ہوئیں ، وہیں حضرت مسیح (علیہ السلام) تولد ہوئے ، اس طرح سے بچہ کی پیدائش بجائے خود حضرت مریم (علیہ السلام) کے لئے خوش آیندہ نہ تھی ، اس پر مزید یہ کھٹکا کہ لوگ کیا کہیں گے ، اور پھر بےسروسامانی کا یہ عالم کہ اپنے پاس کوئی موجود نہیں جو دلداری کرسکے ، اس لئے انسانی فطرت کی کمزوری سے انہوں نے اضطرار یہ کہا کہ (آیت) ” یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا “۔ تو بالکل بجا فرمایا حالات کا تقاضا یہی تھا کہ ان کے منہ سے اس قسم کے کلمات نکلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دی ، حضرت مریم (علیہ السلام) کو فرشتہ نے پکار کر کہا کہ غم نہ کرو ، اس بےسروسامانی میں بھی دو چیزیں موجود ہیں تروتازہ کھجوریں اور چشمہ کا صاف اور شریں پانی ، اور سب سے زیادہ غلط کرنے والا اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا لخت جگر ، ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا چپ رہنا اور اس کو ” صوم “ کے لفظ سے تعبیر کرنا ، اس کے معنے یہ ہیں کہ اس زمانے میں روزہ کی یہ شکل بھی موجود تھی غالبا حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بھی اسی روزہ کی تلقین کی کی گئی تھی ۔ حل لغات : امراسوہ : بڑا آدمی ، سوء کا لفظ گوعام برائی کے لئے موضوع ہے ، مگر اس کا انتساب جب انسان کی طرف ہو ، تو اس سے مراد اخلاق کی برائی ہوتی ہے ۔ بغیا : بدکار ۔ برا : نیک صالح ، حقوق آشنا ۔