سورة مريم - آیت 23

فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

پھر جننے کا درد اسے ایک کھجور کی جڑ کے پاس لے آیا ، بولی ، کاش کہ میں اس سے پہلے مر چکتی ، اور بھولی بسری ہوجاتی۔ (ف ١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

بغیر باپ تولید کے امکانات : (ف1) اللہ تعالیٰ کو جب یہ منظور ہوا کہ مسیح (علیہ السلام) کو بطور خرق عادت کے پیدا کرے تو پہلے حضرت مریم (علیہا السلام) کو اس کی اطلاع دی اس کو یقین دلایا ، کہ تو لوگوں کے اعتراضات کا ہدف بنے گی ، اور پھر قدرت کا اظہار فرمایا ۔ ﴿فَحَمَلَتْهُ﴾ سے مراد طبعی مدت حمل ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے ، یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) میں بیک وقت اللہ تعالیٰ نے افعل وانفعال کی قوتیں پنہاں رکھی ہوں ، اس قسم کی مثالیں آج کل تو بکثرت مل رہی ہیں کہ بہت سے نوجوان مرد عورت بن گئے اور بہت ہی شادی شدہ عورتیں مردوں کی صورت میں تبدیل ہوگئیں ، یہ نظریہ استحالہ شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض عورتوں میں قدرت کی جانب سے تذکیر کا مادہ موجود ہوتا ہے ۔ بعض اوقات جب عورت حد سے زیادہ ذہین ہو ، اور اس کی قوت کو بدرجہ غایت نازک ہو ، تو اس وقت بھی محض یقین اور خیالی قوت سے حمل ٹھہر سکتا ہے طبیعت خود بخود اس نوع کے عناصر پیدا کرلیتی ہے جو اس تبدیلی کے لئے ضروری ہیں ۔ قوت خیال کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے ، اور جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک حساس عورت کو یقین ہوجائے اور نفخہ روح کا عمل بھی بروئے کار آجائے تو پھر بغیر مرد کے حمل ٹھہر جانا مشکل نہیں ، بہرحال اس باب میں اصلی چیز قرآن کی تصریحات ہیں جب قرآن نے اس تبدیلی کا ذکر تفصیل ووضاحت سے فرمایا ہے تو پھر اب مسلمان کے لئے شک اور تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔ حل لغات : نَسْيًا: بھول جانے کے لائق جو چیز ہو ۔