سورة البقرة - آیت 215

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا چیز خرچ کریں ۔ (ف ٢) ، تو کہہ جو مال خرچ کرو ‘ وہ والدین اور ناتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے اور جو نیکی تم کرو گے ‘ وہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) یہ ضروری نہیں کہ (آیت) ” یسئلونک “ سے پہلے کوئی سوال بھی ہو ۔ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم ضروریات انسانی کے موافق نازل ہوا ۔ اس لئے وہ چیزیں جن کی ہم کو ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ اسے (آیت) ” یسئلونک “ کے رنگ میں ذکر کردیتا ہے ، یہ انداز بیان ہے اس لئے اچھے ہر موقع پر شان نزول کی تلاش چنداں مفید نہیں ۔ یہ بھی قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ سوالات جو پیدا ہوتے ہیں ان کا رخ زیادہ اہم اور زیادہ سائستہ اعتناباتوں کی طرف پھیر دیتا ہے ۔ ان آیات میں سوال بظاہر یہ ہے کہ کیا خرچ کریں ، جواب یہ ہے کہ ان ان مقامات پر خرچ کرو ، مقصد یہ ہے کہ بتایا جائے کہ کچھ بھی خرچ کرو ، بہرحال اس کا مصرف صحیح ہونا چاہئے بعض اوقات گراں قدر صدقات بھی صحیح مصرف نہ ہونے کی وجہ سے بیکار ہوجاتے ہیں ، مصرف یہ ہیں ، سب سے پہلے والدین ‘ اس کے بعد اقربا ‘ اس کے بعد یتمی اور مساکین اور اس کے بعد مسافر ، مگر آج ان آیات پر کن کا عمل ہے ہمارے یتیم خانے کہاں ہیں ، مقروض اور مسکین مسلمانوں کے لئے کہاں ٹھکانا ہے ؟ مسافر خانے کس قوم نے تعمیر کئے ہیں ؟ ان سوالات کے جواب مسلمان قرآن حکیم کی روشنی میں سوچیں ۔ حل لغات : الباساء : تکلیف ۔ الضرآء : نقصان ، خیر : بھلائی ۔ مال ۔ ابن السبیل : مسافر ۔