سورة الكهف - آیت 71

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر وہ دونوں چلے ، تاآنکہ ایک کشتی میں دونوں سوار ہوئے ، خضر (علیہ السلام) نے کشتی کو پھاڑ ڈالا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا تونے اس لئے پھاڑ ڈالا کہ کشتی والوں کو ڈبو دے ، تونے انوکھا کام کیا (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تقاضائے اصلاح اور خضر (علیہ السلام) کی عاقبت اندیشی : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب خضر (علیہ السلام) سے ملتے ہیں تو طلب علم کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور اجازت چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہیں ، اور ان کی صحبت سے استفادہ کریں ، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ تعلیم صرف کتابیں پڑھا دینا نہیں ، بلکہ استاد شاگرد کو ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھے ، اور اس کی دماغی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے ، حضرت خضر (علیہ السلام) کہتے ہیں صبر وبرداشت شرط ہے ، اگر میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو جو کچھ بھی دیکھو ، اس پر خاموشی سے غور کرنا ہوگا اور جب تک میں تمہیں خود نہ بتاؤں تم مجھ سے سوالات نہ کرنا ، مقصد یہ تھا کہ شاگرد پہلے سے عجیب وغریب حالات کے مشاہدہ کے لئے مستعد ہوجائے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ شرط منظور کرلی ، اب استاد اور شاگرد دونوں نے سفر اختیار کیا ، کشتی پر بیٹھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ جس کشتی پر وہ سفر کر رہے ہیں ، استاد نے اسی کے ایک تختہ کو توڑ دیا ہے ، یہ دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا ، اور جذبہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر موجزن ہوگیا اور باوجود شرط کے پوچھ ہی تو لیا ، کہ حضرت آپ نے یہ کیا ستم ڈھایا ، بلاوجہ کشتی کو توڑ دیا ، حضرت خضر (علیہ السلام) مسکرائے اور کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم خاموشی سے واقعات کا مطالعہ نہ کرسکو گے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فورا احساس ندامت ہوا سمجھ گئے کہ آپ صاحب فراست ہیں ۔ بلاوجہ حرکت نہ کی ہوگی ، پھر آگے بڑھے ، کشتی سے اترے ، دیکھا کہ ایک لڑکا کھیل رہا ہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) نے اسے پکڑا اور قتل کردیا ، اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صبر نہ ہوسکا ، بےقرار ہو کر پوچھا کہ کیوں صاحب بلاتصور ایک جان عزیز کو ضائع کردینا کہاں کی بھلائی ہے ، آپ نے یہ بہت برا کام کیا ہے ؟ اس قصہ میں دو باتیں بتانا مقصود ہیں ، ایک تو یہ کہ پیغمبر جذبہ اصلاح کس قدر جوش کیس اتھ موجود ہوتا ہے ، وہ نہیں برداشت کرسکتا ، کہ بظاہر کسی برائی کا اس کے سامنے ارتکاب کیا جائے ، اور وہ اسے نہ روکنے کی کوشش کرے ، وہ گناہوں کو دیکھ کر بےچین ہوجاتا ہے ، دوسری بات وہی ترتیب ہے کہ ہر واقعہ کے دو پہلو ہوتے ہیں ، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی ، سمجھدار اور دانا حضرات کا فرض ہے کہ وہ تمام واقعات ژوف نگاہی سے دیکھیں اور ظاہری صورت حال سے دھوکا نہ کھائیں ۔ تفصیل آیندہ صفحہ میں دیکھئے ۔ حل لغات : امرا : خطرناک اور بہت اہم چیز ، چنانچہ جب کوئی واقعہ خطرناک صورت ، اختیار کرے تو کہتے ہیں ، امرالامر : نکرا : غیر مشروع ، ناشناسائی ، وناسپاسی وناخوشی ، وتعجب :