سورة الكهف - آیت 19

وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اسی طرح ہم نے انہیں (ایک دفعہ) جگا دیا تھا کہ آپس میں لگے پوچھنے ، ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر یہاں رہے ‘ وہ بولے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں پھر بولے تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کس قدر ہے اب تم اپنے میں سے ایک کو اپنا روپیہ (نوٹ) دے کر شہر میں بھیج دو ، تاکہ دریافت کرے کہ پاکیزہ کھانا کس کی دکان پر ہے کہ اس سے تمہارے پاس لائے اور نرمی سے بولے اور کسی کو تمہارے حال کی خبر نہ دے (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) طویل مدت کے بعد اللہ نے ان کو زندہ کیا ، یہ اٹھے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کتنی مدت یہاں رہے اور یہ خیال کرکے کہ شاید ایک آدھ دن اس عالم شکر وبیہوشی میں گزرا ہے ، اپنے آدمی کو شہر میں بھیجا کہ وہ نفیس کھانا خرید لائے ، اسے تاکید کی ، کہ خفیہ خفیہ جائے اور ہشیار رہے ، ایسا نہ ہو ، مخالفین پکڑ لیں ، اور پھر غلط عقائد کے ماننے پر مجبور کردیں ، یہ تمام عرصہ انہیں بہت تھوڑا معلوم ہوا ، اس لئے کہ وہ جس حالت میں تھے ، اسی میں زندہ ہوگئے ، انہوں نے یہ خیال کیا ہوگا کہ زہد وعبادت کی کثرت سے شاید قدرے بےہوشی طاری ہوگی ہو ۔