وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
اور روح کی بابت تجھ سے پوچھتے ہیں تو کہہ روح میرے رب کے حکم سے ہے ، اور تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے (ف ١) ۔
(ف ١) یہاں کس روح کے متعلق پوچھا جا رہا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے قرآن نے روح کو متعدد معانی میں استعمال کیا ہے ، روح جبرائیل (علیہ السلام) کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کو بھی اس طرح روح مراد روح حیوانی بھی ہے جس پر زندگی کا دارومدار ہے ، مفسرین کی اکثریت کی رائے یہ ہے یہ یہاں روح سے متعارف روح مراد ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ، اس قسم کے سوالات کا تعلق مذہب سے نہیں ہے ، پیغمبر کے فرائض میں یہ چیز داخل نہیں ہے کہ وہ تمہیں روح کی حقیقت سمجھائے وہ اس لئے آیا ہے ، تاکہ روح کو جو کچھ بھی وہ ہے تازگی اور نمود بخشے ، اسے تزکیہ وتطہیر سے اس قابل بنائے کہ وہ فضائے قدس میں پرواز کرسکے تمہارا علم محدود ہے ، تم اس کی گہرائیوں کو نہیں پا سکتے تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکو ، آج بھی جبکہ ہمارا علم ترقی کرچکا ہے ہم روح کے متعلق بہت کم جانتے ہیں اور آئندہ بھی ہم بہت زیادہ نہیں جان سکیں گے ، کیونکہ ہمارا علم صرف محسوسات تک محدود ہے ، اور وہ بھی ناقص طریق پر ، ہمارے لئے کسی چیز کی پوری حقیقت سے آگاہ ہونا ناممکن ہے ۔ حل لغات : ظھیرا : پشت پناہ :