وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے تجھ سے کہا کہ تیرے رب نے آدمیوں کو گھیر رکھا ہے ، اور وہ دکھلاوا جو ہم نے تجھے دکھلایا تھا اور وہ درکت جس پر قرآن میں لعنت ہوئی ہے ہم نے آدمیوں کیلئے فتنہ ٹھہرایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں ، مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی کو اور کئی درجہ بڑھاتا ہے (ف ١) ۔
مدارک روحانیہ کا ارتقاء : (ف ١) اس آیت بتایا ہے کہ معراج جسمانی کا معجزہ قابل انکار نہ تھا ، مگر تم نے انکار کیا ، حالانکہ اس میں کیا استحالہ ہے ؟ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ لوگ اس حیرت انگیز ارتقاء سے عبرت حاصل کرتے ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدارک روحانیہ کی برتری کے قائل ہوتے اور یہ کہ انکار کرتے ہو ۔ اسی طرح قرآن میں شجر زقوم کا ذکر کیا گیا ، اور تمہیں اعتراض سوجھا ، کہ آگ میں کیونکر اشجار پیدا ہو سکتے ہیں ، حالانکہ تم وہاں کی آگ کی نوعیت سے واقف نہیں ، اور تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کے سب کچھ اختیار میں ہے ۔ جب ان باتوں نے تم میں سوائے انکار کے اور کوئی جذبہ پیدا نہیں کیا تو مزید معجزات سے کیا حاصل ۔