سورة الإسراء - آیت 15

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو ہدایت پر آتا ہے ، اپنے ہی لئے آتا ہے ، اور جو گمراہ ہوتا ہے ، اپنے ہی برے کو ہوتا ہے ، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہم عذاب (ف ١) ۔ نہیں کرتے جب تک کوئی رسول نہ بھجیں ،

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اسلامی قانون مکافات یہ ہے ، کہ ہر شخص بجائے خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہیں ، اس لئے تناسخ غلط ہے ، اور ہدیہ وکفارہ بھی صحیح نہیں ، ہر شخص اپنے اعمال کا جواب وہ ہے کوئی شخص کسی کے کام میں نہیں آسکے گا ۔ (آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “۔ سے مراد یہ ہے کہ عذاب کے لئے تکذیب کی ضرورت ہے ، اور تکذیب کے لئے پیغام کی حاجت ہے ، اس لئے ضرور ہے کہ عذاب سے قبل اتمام حجت ہوچکے ، تاکہ انہیں یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ ہم نے اعمال صالحہ کے لئے مقدور بھر کوشش کی تھی اور ہمیں ناحق عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ یہ یاد رہے ، کہ عذاب سے مراد تمام تکالیف نہیں ، نہ عادی مصائب مقصود ہیں ، بلکہ عذاب وہ ہے جسے متعین طور پر عذاب کہا جا سکے ، جس کے متعلق تصریحات ہوں کہ یہ عذاب ہے ۔ دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ نبعث سے غرض یہ نہیں کہ ہر عذاب سے قبل ایک نبوت کا ظہور ضروری ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہر عذاب سے قبل اتمام حجت ضروری ہے ، مثلا اس زمانہ میں اگر عذاب آئے تو یہ کسی نئی نبوت کے انکار کا نتیجہ نہ ہوگا ، بلکہ اس لئے عذاب آئے گا کہ خدا کا پیغام اسلام کی شکل میں موجود ہے ، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا ، اور اس کی بےحرمتی کی گئی ہے ۔ حل لغات : امرنا : یعنی امرنا بطاعۃ ، بعض نے امرنا سے مراد کثرنا ، لیا ہے یعنی ہم امراء کو تعداد میں بڑھا دیتے ہیں اور تائید میں یہ حدیث پیش کی ہے ، کہ خیر المال موصوۃ مامورۃ اے کثیر النسل ہو سکتا ہے امر سے غرض تقہ رہو ، کیونکہ عرب یہ بھی کہتے ہیں ، ھوا امیر غیر ما مور ۔