وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ
اور اللہ کے سوا انکو پوجتے ہیں ، جو آسمانوں اور زمین میں سے ان کی روزی کے کچھ مختار نہیں ہو اور کچھ مقدور رکھتے ہیں (ف ١) ۔
(ف ١) مختلف انعام ذکر کرنے کے بعد نعمت توحید کی جانب توجہ دلائی ہے ، کہ یہ مشرک اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں ، مگر شکریہ ادا نہیں کرتے ، بلکہ ان نعمتوں کا انتساب اور الٹا دوسروں کی طرف کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں فلان ولی نے ہمارے حال پر کرم کیا ہے ، اور ہمیں رزق کی نعمت سے نوازا ہے فلان فقیر نے ہماری مشکلوں کو آسان کردیا ہے ، فلان قطب اور شیخ نے ہماری سن لی ہے ، اور بیماریاں دور کردی ہیں ، یہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کی ناشکری ہے وہ سارے پیر فقیر خود اس کے در کے بھکاری ہیں ، انہیں جو کچھ ملتا ہے ، اس کے فیض سے ملتا ہے ، وہ تمہیں کیا دیں گے ، وہ بذات خود اسی کے محتاج ہیں ، نادار ، نادار کی کیا مدد کرسکتا ہے ، اس سے مانگو ، جو سب کا داتا ہے جو سب کو دیتا ہے ، جس کے خزانے ہر وقت بھر پور رہتے ہیں ، کہتے ہیں خدا تک پہنچنے کے لئے وسیلے کی ضرورت ہے ، درست ہے مگر کیا تمہاری بیچارگی ، حاجت مندی یہ خود وسیلہ نہیں ؟ تمہاری بندگی اور ھق عبودیت یہ ذریعہ نہیں ؟ توحید اور ایک اللہ پر بھروسہ کیا یہ کافی نہیں ؟ (آیت) ” الیس اللہ بکاف عبدہ “۔ کیا تمہارے اعمال تمہاری سفارش نہ کریں گے ؟ اور کچھ نہیں تو تمہاری گناہگاری اور اللہ کی کریمی بجائے خود بخشش اور قبولیت کا ایک زبردست بہانہ ہو سکتا ہے ، فرمایا اللہ کا دربارامراء اور بڑے بڑے لوگوں ہی کے لئے نہیں کہ وہاں منصب داروں کی سفارش کی حاجت ہو ، اس کا دربار غریبوں اور امیروں دونوں کے لئے یکساں کھلا ہے اس لئے دنیا کی مثالیں اس پر منطبق نہ کرو ۔