وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے آدمی ہی بھیجے تھے ان کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے ، سو اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر (یعنی اہل کتاب) سے پوچھ لو (ف ١) ۔
(ف ١) مکے والوں کا خیال تھا کہ انبیاء کو فوق البشر ہونا چاہئے انسان اس قابل نہیں کہ نبوت کے خلعت کو زیب تن کرسکیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بار بار اس اعتراض کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ انبیاء ہمیشہ بشر اور انسان ہوتے ہیں چنانچہ اس آیت کا مقصد بھی یہی ہے ، کہ تاریخ رشد وہدایت میں پیغمبر انسانی لباس میں آتے ہیں ، اہل کتاب سے پوچھو ، دلائل وبراہین کی روشنی میں غور کرو ، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس حقیقت میں کس قدر صداقت ہے ، (آیت) ” لتبین للناس “۔ سے معلوم ہوا کہ تفصیلات کو دوسروں تک پہنچانا ضروری ہے ، اور تفصیلات کا پہنچانا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے ہے ، قرآن احکام الہی کو بیان کرتا ہے اور اسوہ رسول احکام کی تفصیلات کو ۔ حل لغات : رجالا : یعنی انسان : اھل الذکر ، اہل کتاب ، اصحاب فہم وبصیرت ، والزبر : دلائل ، کتابیں ۔