سورة النحل - آیت 37

إِن تَحْرِصْ عَلَىٰ هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَن يُضِلُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اگر تو ان کی ہدایت پر للچادے (تو کیا کرسکتا ہے) جسے اللہ گمراہ کرے ، اسے وہ ہدایت نہی کرتا ، اور ان کا مددگار کوئی نہیں (ف ٢) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ پیغمبران خدا انسانوں کی ہدایت کے لئے کس درجہ بےقرار ہوتے ہیں ، ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ سب لوگ ہدایت کو قبول کرلیں ، اور اللہ کی آغوش رحمت میں آجائیں ، وہ دن رات شفقت انسانی کی وجہ سے بےچین رہتے ہیں ، انہیں گمراہی اور ضلالت کی وجہ سے روحی تکلیف ہوتی ہے ، اور ان کے دن اور ان کی راتیں کرب واضطراب میں گزرتی ہیں ، نوع انسانی کی ہمدردی کے لئے وہ اپنے سکھ اور چین کو برباد کرلیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب فطرتی تقسیم یہ ہے کہ ایک طبقہ طاغوت کا طالب رہے ، حق کو عمدا ترک کر دے ، راہ صواب سے ہٹ جائے تو پھر آپ کی ہمدردی بےسود ہے ، جو شخص گمراہی پر اصرار کرنے اور روحانیت کی صدائے حق کو نہ مانے تو آپ ہی خیال کیجئے ، کہ آپ کیونکر اس کو متاثر کرسکیں گے ، جو کان بند کرنے ، کیا وہ آواز سن سکتا ہے ؟ جو ناک بند کرلے ، کیا خوشبو اس کے دماغ کو معطر کرسکتی ہے ؟ اگر آپ کو جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا ، تو پھر جو سچائی کی آواز نہ سننا چاہے ، آپ کیونکر اپنی آواز کو اس تک پہنچائیں گے وہ اسلامی برکات وفیوض سے محروم رہنا چاہتا ہے اس لئے توفیق ہدایت اسے نہیں ملے گی ، لہذا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوتا ہے ، کہ آپ ایسے بدبختوں کے لئے اپنا جی تھوڑا نہ کریں ۔ ضمیر وقلب کی مظلومیت ناقابل برداشت ہے ! ۔ حل لغات : الطاغوت : شیطان ، کاہن ، بت ، مقتدائے گمراہاں ، سب معانی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ طغیان سے مشتق ہے ، یعنی راہ حق وصواب سے تجاوز ۔