إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ
لیکن ابلیس نے (نہ کیا) سجدہ کرنے والوں میں ہونے سے انکار کیا (ف ١) ۔
(ف ١) حضرت آدم کے قصے کو قرآن حکیم نے متعدد مقامات پربیان کیا ہے ، غرض یہ ہے کہ انسان اپنے شرف ومجد سے آگاہ ہو ، اسے معلوم ہو ، کہ اللہ نے اس کا درجہ کتنا بلند بنایا ہے آدم (علیہ السلام) کے سامنے فرشتے جھکتے ہیں ، اس لئے چاہئے کہ اس کا سر ہمیشہ اونچا رہے ، وہ اس جبین پر وقار کو جو مسجود ملائک رہ چکی ہے ، بجز رب العالمین کے اور کسی کے آگے نہ جھکائے ، اللہ نے فرشتوں کو اسی لئے جھکایا ، اور سجدہ کا حکم دیا ، تاکہ ابتداء ہی سے آدم کے دل میں خود شناسی کا مادہ پیدا ہو ، اور وہ اپنے مرتبت سے واقف ہو ، اسے معلوم ہو کہ میں فرشتوں کو اپنے سامنے جھکا سکتا ہوں ، اور اللہ نے مجھے تمام مخلوقات میں اشرف بنایا ہے ۔ شیطان نے انکار کیا ، وہ آج بھی انسانی فضیلت کا معترف نہیں ، غرج یہ ہے کہ آدم اپنی زندگی کی تگ ودو میں دشمنوں سے آگاہ رہے ، اور شیطانی حربوں سے ہوشیار رہے ۔ حل لغات : من روحی : روح کا انتساب اپنی جانب تشریف کے لئے ہے ۔