يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
لوگو ! جو کچھ زمین میں حلال اور ستھرا ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ (ف ١)
اکل حلال : (ف ١) عرب میں ایسے قبائل بھی تھے ثقیف وخزاعہ کی طرح جو حلال چیزوں کو حرام قرار دے لیتے تھے اور ایسے بھی تھے جو حرام اور مکروہ چیزیں استعمال میں لاتے تھے ، قرآن حکیم نے ان آیات میں اکل حلال کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ حلت وحرمت کا مسئلہ اس نے قابل لحاظ ہے کہ خوراک کا مسئلہ براہ راست ہمارے اخلاق سے تعلق رکھتا ہے ، اباحت مطلقہ جہاں صحت کے لئے مضر ہے ‘ وہاں اخلاق کے بھی مفید نہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خاص خاص قسم کی غذائیں خاص خاص نوع کے اخلاق وعادات پیدا کرنے میں ممدومعاون ہوتی ہیں اس لئے وہ مذہب جو اصلاح اخلاق کا مدعی ہے ، ضرور ہے کہ خوراک کے مسئلے سے شدید تعرض کرے ، ماکولات ومشروبات استعمال نہیں کرتی اور ذوق سلیم گوارا نہیں کرتا (ب) وہ چیزیں جو سخت مضر ہیں وہ بھی حرام ہیں (ج) وہ اشیاء جو مضر اخلاق وعادات پیدا کریں ، ان کا استعمال سے شرک پھیلنے کا اندیشہ ہو ۔ ان کے علاوہ ہر چیز جو پاکیزہ ہو ، ذوق سلیم پر اس کا کھانا گراں نہ ہو ، حلال ہے طیب کے معنی یہ ہیں کہ اسے جائز وسائل سے حاصل کیا گیا ہو ، یعنی ایک چیز اگر حلال ہے لیکن اسے چوری سے حاصل کیا گیا ہو تو اس کا کھانا درست نہیں ۔ اسلام چونکہ دنیا کا پاکیزہ ترین مذہب ہے ، اس لئے وہ زندگی ہر شعبے میں پاکیزگی چاہتا ہے ، نیز ان آیات میں بتایا ہے کہ خواہ مخواہ لذائذ کو اپنے نفس پرحرام قرار دے لینا درست نہیں ہر چیز جو اللہ نے پیدا کی ہے ، اگر وہ حلال وطیب ہے تو اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ، پرہیزگاری یا تورع اس پر موقوف نہیں کہ خدا کی نعمتوں کو نہ استعمال کیا جائے بلکہ اس میں ہے کہ باندازہ نعمت اللہ کا شکریہ ادا کیا جائے اور شیطان کی اطاعت سے گریز کیا جائے اس کی تمام راہوں سے احتراز کیا جائے ، وہ جو لذائذ سے محروم ہے ‘ وہ بھی گناہ گار ہو سکتا ہے اور وہ جس کو سب نعمتیں حاصل ہیں وہ بھی اللہ کی نافرمانی کرسکتا ہے اس لئے اصل چیز ترک لذت نہیں بلکہ اللہ کا ڈر ہے ۔