سورة الرعد - آیت 35

مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوا ۖ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جنت کی صفت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔ اس کا میوہ اور سایہ دائمی ہے ، یہ انجام ڈرنے والوں کا ہے اور کافروں کا انجام آگ ہے (ف ٢)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جنت کا سادہ اور واقعی تخیل : (ف ٢) متقی اور پرہیز گار لوگ دنیا میں اپنی خواہشات نفس کو اللہ کے تابع کردیتے ہیں ، ان کا کوئی ارادہ نہیں رہتا ، خواہشیں اور مطالبے سب منشاء ایزدی کے ماتحت ہوجاتے ہیں ، کیونکہ اپنی مستی کو اللہ میں گم کردینے کا نام ہی تو اتقا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ آخرت میں ان لوگوں کے لئے حسرت وابتہاج کے تمام سامان موجود ہیں ، جس طرح دنیا میں کامیابی کا نتیجہ اور نشانی دنیوی آسائشوں کا دفور ہے ، اس طرح آخرت میں جو کہ انسانی زندگی کی تکمیل کا نام ہے ، ضروری ہے کہ تمام مادی مسرتیں جو جائز ہیں موجود ہوں ۔ یہ انسان کی فطرت ہے تمام انسان دل سے چاہتے ہیں کہ انہوں زندگی کے ایسے پرامن لمحات میسر ہوں جن میں مرض وعلالت کا شائبہ نہ ہو ، جس میں کم مائگی وافلاس کا خطرہ نہ ہو ، ظاہر ہے یہ لمحات یہاں میسر نہیں ہیں ، یہاں ہزاروں ارمان ہوتے ہیں ، ارمان ہوتے ہیں ، جو قبر تک ساتھ جاتے ہیں ، کیا یہ فطرت کی آواز نہیں کیا یہ مصنوعی تقاضے ہیں ؟ جواب ملے گا نہیں یہ عین انسانی خواہش ہے ، یہ وہ آرزو ہے جو ہر دل میں موجزن ہے ، پھر اس کی تکمیل کہاں ہوگی ؟ قرآن کہتا ہے تم اگر یہاں خواہشات نفس کے منہ میں لگام دو ، اور اپنی زندگی کو خدا کے تابع بنا دو تو آخرت میں اللہ تمہاری اس آرزو کو پورا کر دے گا کتنا سادہ اور واقعی تخیل ہے ، جنت کا جس کو اسلام پیش کرتا ہے ۔ مگر وہ لوگ جو جاہل ہیں ، اس حقیقت پر معترض ہیں ، دنیا میں ان کی تمام تگ ودو کا مقصد دنیا کی انہیں خواہشوں کی تکمیل ہے ، یہ بات اللہ کو محبوب ہے ، کہ تم مسلمان ہوجاؤ یہ سب کچھ تمہیں دوسری زندگی میں مل جائے گا ۔ حل لغات : السبیل : راہ حق ، اسلام کے نزدیک چونکہ ایک ہی راہ حق ہے ، اس لئے وہ صرف السبیل کے لفظ کے ساتھ اس کو تعبیر کرتا ہے ۔ مثل کے معنی وصف کے بھی آتے ہیں جیسے (آیت) ” مثلھم کمثل الذی استوقد “ ۔ میں ہے ۔