اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ
اللہ جس کی چاہے روزی فراخ کرتا ہے اور تنگ کرتا ہے ۔ اور وہ حیات دنیا سے خوش ہیں ۔ حالانکہ حیات دنیا آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ، مگر تھوڑا فائدہ (ف ٢)
(ف ٢) عام طور پر حق کی مخالفت اس لئے کی جاتی ہے ، کہ ایثار میں بظاہر خسارہ ہے ، بھوک وافلاس کا خطرہ ہے ، دیندار انسان کے لئے تکلفات کا حصول ناممکن ہے ، قرآن حکیم اس ہمہ گیر مغالطہ کی تردید فرماتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ رزق کی کشائش اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس کا تعلق بےدینی اور الحاد سے نہیں ، بہت سے ملحد ایسے ہیں جو بھوکوں مر رہے اور بہت سے مومن ہیں کہ اللہ کی بہت نعمتیں انہیں میسر ہیں ، اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کے بہت سے بندوں کو گاڑھا اور کزی نہیں ملتا ، کہ تن ڈھانک اور بےدین بدمعاش مخمل وکمخواب کے بستروں پر محو خواب ہیں ، یہ خدا کا دین ہے ، جسے جو چاہے دے اور جسے چاہے محروم رکھے ، البتہ اس نے رزق کے حصول کے کچھ قواعد ضرور ارشاد فرمائے ہیں ، وہ قومیں جو ان اصولوں کو ملحوظ رکھتی ہیں ، اور ان پر عمل پیرا ہوتی ہیں ، مالدار ہیں اور وہ جو ان قواعد سے تغافل کرتی ہیں ، افلاس میں مبتلا ہیں ۔ مومن و کافر میں امتیاز یہ ہے کہ مومن دنیا کو نصب العین نہیں ٹھہراتا اور باوجود تمام آسائشوں کے اسے ضمائے آخرت کے مقابلہ میں متاع قلیل ٹھہراتا ہے ، اور کافر کی تمام جدوجہد دنیا کے لئے ہے غرض یہ ہے کہ دنیا کے لئے دین کو مت ضائع کرو ، اگر دین کی نعمتوں سے تم نے اپنا دامن بھر لیا ، تو دنیا بھی تمہیں حاصل ہوجائے ، اور اگر صرف دنیا چاہو کے تو دین سے محرومی ہی ممکن ہے ، دنیا بھی نہ ملے اور تم (آیت) ” خسرالدنیا والاخرہ “۔ کا مصداق بن جاؤ ۔