قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
تو کہہ آسمانوں اور زمین کو رب کون ہے تو کہہ ، اللہ ہے تو کہہ پھر کیا تم نے اس کے سوا اور حمایتی پکڑے ہیں ، جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ، تو کہہ کہ اندھا اور بینا برابر ہیں یا تاریکیاں اور روشنیاں برابر ہیں یا انہوں نے اللہ کی شریک ٹھہرائے ہیں ، جنہوں نے اللہ کی پیدائش کی مانند کچھ پیدائش کی ہے اور ان کی نظر میں وہ پیدائش رل مل گئی ہے ؟ تو کہہ اللہ ہی ہر شئے کا خالق ہے ، اور وہی اکیلا غالب ہے (ف ٢)
مشرک عقل کا اندھا ہے ! (ف ٢) جب یہ حقیقت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں اسی نے سب کچھ پیدا کیا ہے ، وہی خیر کا مالک ہے نفع وضرر اس کے ہاتھ میں ہے ، تو پھر اسے چھوڑ کر دوسروں سے رشتہ جوڑنا کیا ظلمت نہیں ؟ کیا یہ اندھا پن نہیں ؟ کہ کمزور وسائل کی پوجا کی جائے ، اور اللہ کو چھوڑ دیا جائے جو احکم الحاکمین ہے ۔ جس طرح کہ وہ اندھا ہے جس کی آنکھیں نہیں ۔ اسی طرح جس میں توحید کی بصیرت نہیں وہ روحانیت کے لحاظ سے اندھا ہے ، موحد کی آنکھیں ہیں وہ بینا اور ہوشمند ہے ، مشرک غور بین اور حق بین نہیں ، اس لئے وہ اندھا ہے اور سمجھ بوجھ سے دور ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس طرح نور وظلمت میں امتیاز ہے اندھے اور سجا کے میں فرق ہے ، اسی طرح خدا پرستوں اور مشرکوں میں امیتاز ہے ۔ خدا پرست کا دل نور سے معمور ہوتا ہے اور منکر جہالت وتوہم کی اندھیاریوں میں ٹامک ٹویاں مارتا ہے ۔ حل لغات : القھار : غالب ، قہر کے معنی ، غلبہ وتذلیل دونوں کے ہیں ۔ فاما الیتیم فلا تقھر : (یعنی یتیم کو ذلیل نہ کر) یہاں غلبہ وعار مقصود ہے ۔