سورة یوسف - آیت 83

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یعقوب (علیہ السلام) بولا ، ہرگز نہیں بلکہ تمہارے والوں نے ایک بات گھڑلی ہے ۔ اب صبر بہتر ہے ۔ امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لائے گا ، وہی ہے خبردار حکمتوں والا ۔ (ف ١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) جب یہ لوگ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے ، اور انہوں نے یہ داستان غم سنائی ، تو آپ نے نہایت تاسف کے ساتھ اس خبر کو سنا ، مگر یقین نہ ہوا ، کیونکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے اس سے قبل یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بھی جھوٹ بولا تھا ، فرمایا تم جھوٹ بولتے ہو ، تم نے یہ قصہ گھڑ لیا ہے ، میں بہرحال صبر کا پتھر چھاتی پر رکھتا ہوں ، اور اس صدمہ کو برداشت کرتا ہوں ، مجھے خدا سے امید ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین دونوں بھائی بالآخر مجھ سے ضرور ملیں گے ، ۔ اور اللہ تعالیٰ ضرور ملاقات کا سامان بہم پہنچائیں گے ، یہ عجیب بات ہے کہ وجدان صحیح سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں ، اور بنیامین بھی ان کے پاس ہیں ، اور دونوں اکٹھے میرے پاس آئیں گے ، اور میر کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنیں گے ، مگر انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس دفعہ یہ لوگ بےقصور ہیں ، دور کی خبر معلوم ہوجاتی ہے ، مگر قریب کے حالات سے آگاہ نہیں ، اس لئے کہ غیب کی کنجیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جس قدر چاہتا ہے ، اپنے بندوں کو غیب سے مطلع کردیتا ہے ۔ انبیاء کا علم ووجدان جس سے ان کو غیوب پر اطلاع ہوتی ہے محض وقتی ہوتا ہے ، یہ ضرور نہیں کہ ہر وقت انہیں ہر چیز کا علم ہو ، البتہ اللہ کے منشاء کے مطابق وہ ضروریات کے متعلق کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں ، یہی وجہ سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) مدت تک اصل حالات سے آگاہ نہیں ہوئے ۔