سورة یوسف - آیت 66

قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بولا ، میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک اللہ کو درمیان لا کر مجھ سے عہد نہ کرو کہ تم اسے میرے پاس واپس لاؤ گے اور تم سب قید نہ ہوجاؤ پھر جب انہوں اس سے عہد کرلیا ۔ تب بولا جو باتیں ہم نے کی ہیں ان پر اللہ (کافی) کار ساز ہے ۔ ( ف ١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) باوجود مضبوط عہد لینے کے پھر بھی اللہ پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کو کارساز قرار دیا ہے ، جس کے معنے یہ ہیں کہ کلی طور پر اسباب پر توکل کرنا جائز نہیں ، خدا پرستی یہ ہے کہ ایک طرف ضروری تدابیر اختیار کی جائیں اور دوسری جانب یقین واثق ہو کہ ان اسباب میں خیروبرکت پیدا کرنا اللہ کا کام ہے ۔