فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
سو اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی ، پھر اس سے ان کا فریب ہٹایا ، البتہ وہ سنتا جانتا ہے۔ (ف ١)
(ف1) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عزیزہ مصر کو تو یہ جواب دیا ، کہ میں جیل میں جانا پسند کرتا ہوں مگر یہ دعوت معصیت قبول نہیں اور ان عورتوں کے متعلق جو دیدہ حیرت بن کر یوسف کو تک رہی تھیں ، اور چاہتی تھیں کہ کسی طرح ہماری کوئی ادا اسے پسند آجائے ، یہ دعا مانگی ، کہ اللہ ان نازک مواقع پر تو ہی ہے جو اپنے بندوں کو گناہوں سے بچاتا ہے ، جب چاروں طرف سے معصیت کے بادل گھر آئیں ، تو وہی ہے جو پاکدامنی کی توفیق مرحمت فرماتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دعا کرنا اور برائی سے متاثر نہ ہونا انتہا درجے کی خدا پرستی ہے ۔ غور کرو ، خوش جمال عورتوں کا پراجما بیٹھا ہے ، اور عشق ومحبت کے تیر برسائے جا رہے ہیں ، آتش نفس کو بھڑکایا جارہا ہے مگر وہ اللہ کا بندہ پیشگاہ جلالت میں دست بدعا ہے کہ خدایا اس مصیبت سے بچا ، اس ابتلاء سے مجھے نکال ، اور خالصۃ اللہ کی جانب رجوع ہے ، خدا کا خوف دل پر غالب ہے ۔