فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
پھر جب عزیز کی عورت نے عورتوں کے مکر کو سنا تو ان کی طرف بلاوا بھیجا اور ان کے لئے محفل جمائی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دی ، اور یوسف (علیہ السلام) سے کہا ان کے سامنے نکل آ پس جب عورتوں نے اسے دیکھا ، تو اسے بڑا جانا ، اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے ، اور کہا ، حاشا اللہ ‘ یہ انسان نہیں ، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے (ف ١) ۔
ازدیاد محبت : (ف ١) خوشبو اور محبت ہزار پردوں میں ہو ، چھپی نہیں رہتی خاتون مصر کے عشق کا دور دور چرچا ہوگیا ، گھروں میں عورتیں طعنے دینے لگیں کہ ایسی بھی کیا محبت جو اپنے غلام سے ہو ، اور والہانہ ہو یہ صریح گمراہی اور مغلوبیت ہے ، بات یہ ہے کہ جب تک واردات محبت سے کوئی شخص آگاہ نہیں ہوتا ، وردنہاں کا اندازہ نہیں کرسکتا ، انہیں کیا معلوم یوسف (علیہ السلام) میں کیا جادو ہے ، جو عزیز مصر ایسی شریف خاتون عزت وناموس سے بےپروا ہو کر باولی ہو رہی ہے ۔ جب امراۃ العزیز کو معلوم ہوا کہ کچھ عورتیں میرے یوسف (علیہ السلام) پر طعنہ زن ہیں ، اور میری محبت پر حرف گیر تو اس نے ایک دعوت طعام کا انتظام کیا ، عورتیں آ آکر سندوں پر بیٹھ گئیں ، چھریاں ہاتھ میں ہیں اور کھانے پینے میں مصروف ہوگئیں ، ادھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس محفل قریب وطن میں داخل ہوں اور اپنے جلوہ پاک سے انہیں مسحور کردیں ، انہیں بتا دیں کہ عزیز مصر کا عشق کسی معمولی شخصیت کے ساتھ نہیں ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) سرداروں ہزار تقدس اس مجلس ناز میں اچانک داخل ہوئے ، عورتوں نے دیکھا کہ محسن ظاہری کے ساتھ حسن باطنی کی بھی کمی نہیں ، اور جبین تقدس سے پاکبازی کی تیز کرنیں نکل رہی ہیں ، تو بےاختیار بول اٹھیں ، سبحان اللہ ، یہ انسان نہیں ، کوئی پاک سیرت اور بزرگ فرشتہ ہے ، ہاتھ بےخودی میں کاٹ لئے ، نازک نازک انگلیاں زخمی ہوگئیں ، عزیز ومصر کو موقع مل گیا ، اس نے چمک کر کہا یہی ہے وہ مرد مقدس جس پر میں سوجان سے عاشق ہوں ، اور اسی کے بارہ میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں میں نے بہتیری کوشش کی کہ کسی طرح اس کو اپنی طرف مائل کروں ، مگر بچارہا ، یہ یاد رہے اب کی میں اسے مجبور کر دوں گی ، اور مگر یہ وہ کام کریگا جو میں اسے کہتی ہوں ، تو جیل میں بھجوا دوں گی ۔