قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ
بولے ، اے باپ ! تیرا کیا حال ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی نسبت تو ہمارا اعتبار نہیں کرتا ، اور ہم اس کے خیر خواہ ہیں ۔ (ف ١)
یوسف (علیہ السلام) کیوں باپ کو پیارے تھے ! (ف1) اب یوسف (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں شروع ہوتی ہیں ، بھائی ملے کرتے ہیں ، کہ یوسف کو تاریک کنوئیں میں ڈال دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اس کو بھیڑئیے نے کھالیا ہے تاکہ ہم یوسف (علیہ السلام) کی جگہ لے لیں اور باپ ہم سے زیادہ محبت کرنے لگے ۔ بات یہ تھی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خلعت نبوت ملنے والا تھا ، یہ باپ کے ہونہار اور سعادتمند صاحبزادے تھے ، باپ کو بالطبع ان سے زیادہ انس تھا ، اور یہ محبت دوسروں کو ناگوار تھی اور قرآن حکیم سے یہ ثابت نہیں ہوتا ، کہ یہ لوگ بھی انبیاء تھے ، بلکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی بدگمانی اور ان کے دوسرے افعال سے ثابت ہوتا ہے ، کہ وہ انبیاء نہ تھے کیونکہ انبیاء کا دل اس نوع کے جذبات سے پاک ہوتا ہے ۔