إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ
جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا ، اے باپ میں نے گیارہ ستاروں ، اور سورج اور چاند کو دیکھا ، کہ مجھے سجدہ کرتے ہیں (ف ١) ۔
خواب کی حقیقت : (ف ١) بعض خواب قابل تعبیر ہوتے ہیں ، ان کا تعلق مستقبل کے حالات سے ہوتا ہے ، اور بعض اضغاث واھلام ، یعنی خوابہائے پریشان ، جن کی تعبیر بوجہ اختلاف احوال معقول وغیر معقول نہیں ہے ، خواب کیوں تعبیر طلب ہوتا ہے ؟ اور کیوں اس کا تعلق آئندہ حالات سے ہوتا ہے ؟ مادیت کی رو سے اس کا کوئی جواب نہیں ، البتہ مذہب نے اس حقیقت کو بیشتر سے معلوم کرلیا ہے کہ روح انسانی فیضان آلہی کا نتیجہ ہے اور روح کا تعلق عام ارواح سے ہے جب روح کو کامل تجرد اور علیحدگی کا موقع ملتا ہے ، وہ عالم ارواح کی جانب پرواز کرلی ہے تو اپنے ساتھ بیش بہا معارف ومعلومات لاتی ہے ۔ خواب کی پوری پوری حقیقت اب تک معلوم نہیں ہوسکی بہر حال آیندہ معلومات کی آئینہ داری کی کامل تردید ہے ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ آسمان کے گیارہ ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں ، اور چاند سورج بھی جھکے ہوئے ہیں ، اس لئے انہیں تعجب ہوا ، اور انہوں نے اپنے والد سے استصواب کیا ،