سورة البقرة - آیت 151

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جیسے کہ ہم نے ایک رسول تمہارے ہی درمیان سے تم میں بھیجا وہ ہماری آیتیں تم پر پڑھتا ہے اور تمہیں سنوارتا ہے اور کتاب وحکمت اور وہ باتیں بتلاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے ، (ف ١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وظیفہ رسالت : (ف ١) (آیت) ” کما ارسلنا “۔ سے مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی ہادیانہ حیثیت اسی طرح ہے کہ جس طرح ایک رسول آیت اللہ کی تلاوت کرے اور تعلیم وتزکیہ کے رموز سمجھائے ، یا یہ بتانا مقصد ہے کہ تعین اس طرح کی ایک نعمت ہے جس طرح کہ بعثت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضمنا یہ بتایا ہے کہ وظیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہے ، یا انبیاء اور عام مصلحین میں کیا بین امتیاز ہے ؟ وہ یہ کہ عام مصلحین صرف کہتے ہیں ، صرف تعلیم دیتے ہیں ، لیکن انبیاء علیہم السلام تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ قلوب کو جلا بھی دیتے ہیں ، جیسے دماغوں کو معارف وحکم سے منور کرتے ہیں ‘ ویسے دلوں کی تاریک دیا کو بھی اجالے بخشتے ہیں ، ان کی نگاہیں علم ومعرفت کی سطح پر ہی مرکوز ہو کر نہیں رہ جاتیں ، بلکہ وجدان وطمانیت کی گرائیوں تک نفوذ کر جاتی ہیں ، وہ دنیا میں قول وعمل کا ایک بہترین امتزاج ہوتے ہیں یعنی جوامع الکلم کے ساتھ مکارم اخلاق کا اجتماع صرف انکے ساتھ ہی مخصوص ہوتا ہے ۔