فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
سو (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کہیں تو وحی کی باتیں جو تجھ پر نازل ہوئیں چھوڑ بیٹھے گا ، اور تیرا دل اس سے تنگ ہوجائیگا ، (اس خیال سے) کہ وہ کہتے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نہ نازل ہوا ، یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا تو تو ڈرسنانے والا ہے ‘ اور اللہ ہر شے پر وکیل ہے (ف ١) ۔
خزائن رحمت کی فراوانی : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفقت و رحمت کے پیکر تھے ، تمام تکالیف جو دعوت تبلیغ کی پیش آتیں ، بخندہ پیشانی برداشت کرتے ، قوم کی مخالفت کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرتے ، گالیوں ، اور طعنوں اور الزاموں کو سنتے اور صبر کرتے ، دن رات قوم کی اصلاح کے درپے رہتے مگر جب کھلا اور واضح عنا دکی واشگاف دشمنی دیکھتے ، تو پھر فطرتا آپ کو تکلیف محسوس ہوتی ، اور اس وقت آپ باوجود تحمل وبرداشت کے گھبرا اٹھتے ، کیونکہ قوم جب تک بےعلم رہے جاہل اور ناآشنا ہو ، مرشد کامل کا فرض ہے کہ اسے سمجھائے مگر جب جان بوجھ کر بار بار مخالفت وعداوت کی جائے اس وقت ایک مخلص رہنما کو طبعا دکھ ہوتا ہے ، اور یہ دیکھ نتیجہ ہوتا ہے ، انتہائی خلوص وہمدردی کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ العالمین ہیں کبھی کبھی ان لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے بےچین ہوجاتے ، اور بالخصوص جب کہ وہ اس قسم کے طعنے سنتے کہ یہ کیسا رسول ہے جس کے پاس مال ودولت کے خزائن نہیں ، جو نہ خود فرشتہ ہے اور نہ جس کے پاس فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، آپ زیادہ اذیت محسوس کرتے ، کیونکہ اس مطالبہ میں ہدایت وسعادت کا کوئی جذبہ نہیں جو کار فرما ہو ، مقصد محض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ستانا اور چھیڑنا ہے ، ورنہ کون نہیں جانتا آپ کے پاس ہر وقت برکات وفیوض کے خزائن رہتے اور فرشتے آپ کے جلو میں ہوتے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دولت ایمان کی اس قدر فراوانی تھی کہ دس ہزار عالم سیر ہوجائے اور وہ ختم نہ ہوتی ، بزرگی وحشمت کے اس درجہ آپ مالک تھے کہ فرشتے آپ کے حضور میں آنا وجہ افتخار سمجھیں ۔