فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ
پھر موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہ لایا ، مگر اس کی قوم کی کچھ ذریت ایمان لائی ، سو وہ بھی اپنے سرداروں اور فرعون سے ڈرتے ہوئے کہ انہیں فتنہ میں نہ ڈالیں ، کیونکہ فرعون ملک پر چڑھ رہا تھا اور (ظلم کیلئے) اس نے ہاتھ بالکل چھوڑ رکھتے تھے۔ (ف ١)
(ف1) باوجود کامیابی کے پھر بھی ابتدا چند ہی لوگ ایمان لائے کیونکہ ان کے دلوں میں فرعون کا ڈر بےطرح متمکن ہوچکا تھا ، صدیوں کی غلام قومیں جرات وجسارت سے محروم ہوجاتی ہیں ، اور اظہار حق کی قوت ان سے چھن جاتی ہے ، یہ عام قاعدہ ہے ، بنی اسرائیل بھی چار سو سال سے غلام چلے آرہے تھے اس لئے فرعون کے غلبہ سے طبعی طور پر مرعوب ومغلوب تھے ۔ حل لغات: الْمُسْرِفِينَ: مسرف حدود فطرت سے تجاوز کرنے والا ،