هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی ہے جو تمہیں جنگل اور دریا میں پھراتا ہے ‘ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہو ، اور وہ لوگوں کو اچھی ہوا سے لے چلیں ، اور وہ اسی ہوا سے خوش ہوں ‘ ناگاہ کشتیوں پر طوفانی ہوا آئے ، اور ہر طرف سے ان پر موج مارے اور وہ سمجھیں کہ اب ہم گھر گئے تو صاف دلی سے اللہ کو خالص اسی کی بندگی کرکے یوں پکارتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس آفت سے بچالے تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے (ف ١) ۔
(ف ١) فطرت کے لحاظ سے ہر شخص کو پاکیزہ پیدا کیا گیا ہے ہر قلب میں اللہ کی توحید کے چشمے بہتے ہیں ، ہر آنکھ جلوہ ہائے طور وسینا کا تماشہ کرسکتی ہے ، مگر ہوتا یہ ہے کہ زندگی کی کثافتوں میں فطرت کی پاکیزگی ضائع ہوجاتی ہے ، خیالات فاسدہ کی وجہ سے دل بےنور ہوجاتا ہے ، اور جہالت تعصب کی وجہ سے بصیرت بھی باقی نہیں رہتی ، عیش وتنعم کی زندگی میں انسان اللہ کو بھول جاتا ہے ۔ مگر جونہی کوئی حوادث سے آنکھیں کھلتی ہیں ، سوئی ہوئی فطرت بیدار نظر آتی ہے ، دل کے تمام حجاب ایک ایک کر کے اٹھ جاتے ہیں ، اور قہر قلب سے توحید کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ ان آیات میں انسان کی اس فطرت مستور کا حال بیان کیا ہے کہ مصیبت کے وقت یہ ہمیں یاد کرتے ہیں اور جہاں ہم نے اس کی سن لی ، پھر وہی تمردو معصیت پھر وہی گناہوں کا ارتکاب اور جذبہ عیش وتنعم موجزن ہونے لگتا ہے ۔ قرآن چونکہ علیم بذات الصدور “ خدا کی کتاب ہے اس لئے اس میں یہ تمام الجھنیں دور کی گئی ہیں ، جو دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ انسان کس کس راہ سے فریب کھاتا ہے اس لئے ان واردات کو کھول کھول کر بیان کیا ہے ، (آیت) ” یسیرکم فی البروالبحر “۔ سے غرض یہ بھی ہے کہ انسان کے تجربوں کی دنیا وسیع ہونی چاہئے اور چل پر کر اسے دیکھنا چاہئے کہ کائنات میں کیا رہا ہے ۔ حل لغات : عاصف : تیز اور سخت ہوا ۔