وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب آدمی پر تکلیف آتی ہے ، تو کروٹ پڑا ہوا یا بیٹھا ہوا یا کھڑا ہمیں پکارتا ہے ، پھر جب ہم اس سے اس کا رنج دور کردیتے ہیں تو چلا جاتا ہے گویا اس نے پہنچے ہوئے دکھ میں ہمیں پکارا ہی نہ تھا ، اسی طرح حد سے نکلنے والوں کے لئے ان کے اعمال مزین کئے گئے ہی۔ (ف ٢)
(ف2) اس آیت میں انسان کی اس نفسی خوبی کو بیان کیا ہے کہ مصیبت کے وقت اس کا دل مجلی ہوتا ہے ، اور اس وقت وہ اللہ کی ضرورت کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتا ہے مگر جب تکلیف کا وقت گزر جاتا ہے ، دل پر بدستور غفلت کا حجاب پڑجاتا ہے ، اور فطرت کی آواز دب جاتی ہے ۔ سچا مومن وہ ہے جو دولت وعافیت کے نشوں میں بھی فطرت پر نظر رکھتا ہے ، اور مذہب وملت کی ضروریات کو کسی حالت میں بھی فراموش نہیں کرتا ۔