سورة التوبہ - آیت 100

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور مہاجرین اور انصار میں سے جنہوں نے سبقت کی ، اور اول رہے ، اور جو لوگ نیکی سے ان کے بعد آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا ، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اور ان کے لئے باغ تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ وہاں رہیں گے ، یہی بڑی مراد ملنی ہے۔ (ف ٢)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سند رضا : (ف2) اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین جن کو ایمان میں سبقت کا فخر حاصل ہوا ہے اور مہاجر ہوں یا انصاری اور وہ لوگ جن کو ان کی پیروی کی سعادت نصیب ہوئی ہے مقام رضاء پر فائز ہیں ، یعنی اللہ ان سے خوش ہیں ، اور وہ ہمیشہ اس کی رضاء کے جویاں رہے ، ان کے لئے جنات خلد کے ابواب کھلے ہیں ، اور یہی فوز عظیم کی خوشخبری ہے جس سے وہ بہرہ مند ہیں ، کہئے وہ لوگ جو صحابہ کی شان میں گستاخی سے پیش آتے ہیں ، اور ان لوگوں کی توہین کرنا جزو ایمان سمجھتے ہیں ، جو جب تک زندہ رہے ، پیغمبر کی آنکھوں کا نورر ہے ، اور جب مرے تو رضا الہی کی سند حاصل کر کے، کیا یہ بدبختی ومحرومی نہیں اور کیا اس سے بڑھ کر الحاد وبے دینی کا اور کا تصور کیا ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کی عقل ودانش پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ، یہ بدبخت دین حنیف کو گویا خود صاحب دین سے زیادہ سمجھتے ہیں ، اور معاذ اللہ خو پیغمبر سے زیادہ دین کا درد اپنےپہلو میں رکھتے ہیں پیغمبر تو ان اصحاب کو اپنی محفل میں جگہ دے کرانکو شرف مصاہرت سے نوازے ، ان کو اپنے عزیز اور دوست قرار دے اور عمل سے واضح کر دے کہ یہ میرے پیارے ہیں ، اور یہ کہیں کہ نہیں یہ دوست نہیں دشمن ہیں ۔