وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اور اگر ان کا کوئی شخص مر جائے تو اس پر کبھی نماز نہ پڑھیو ، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ، وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺسلم) کے منکر ہوئے ، اور فاسق ہی مر گئے ۔(ف ١)
دریائے رحمت کی طغیانی : (ف1) عبداللہ بن ابی ابن سلول جو رأس المنافقین تھا ، جب مرا ہے تو اس کا لڑکا حضور (ﷺ) کے پاس آیا ، اور تبرکا آپ سے کرتہ مانگا ، یہ بھی درخواست کی کہ آپ نماز جنازہ پڑھائیں ، آپ تیار ہوگئے ، حضرت عمر (رض) نے روکا ، اور کہا اللہ نے تو استغفار سے روکا ہے منافق کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے ، مگر رحمت جوش پر آئی ہوئی کب رکتی ہے حضور (ﷺ) نے فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے ، روکا نہیں گیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور (ﷺ) کی رحمت کو اس فراوانی و طغیانی سے تعبیر کیا گیا ، اور عمر (رض) کی فراست دینی کی داد میں۔