سورة التوبہ - آیت 40

إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہ کرو گے (توخیر) خدا نے اس کی اس وقت مدد کی تھی جب کافروں نے اسے مکہ سے اس حال میں نکالا ، کہ وہ وہ ہیں دوسرے تھے ، جب وہ دونوں (ابوبکر (رض) و محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) غار ثور میں تھے جب (دونوں میں کا ایک) اپنے ساتھی سے کہنے لگا تھا ، مت ڈر ، اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے اپنی طرف سے اس پر تسلی نازل کی ‘ اور فوجوں سے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اس کی مدد کی ‘ اور کافروں کی بات نیچی رکھی ، اور خدا کی بات وہی بلند ہے ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خدا کی بات : (ف ١) غار ثور میں جب آفتاب نبوت جا کر چھپا ہے تو کرنیں پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی تھیں ، دہانہ غار پر کفار موجود تھے ، ان کے پاؤں کی چھاپ صاف سنائی دیتی تھی ، اسی لئے حضرت ابوبکرصدیق (رض) گھبرائے مگر ان کی بصارت گم تھی ، خدا یہ چاہتا تھا کہ اس کی تدبیر کارگر ہو ، اس کی بات بلند ہو ، اور یہ خائب وخاسر رہیں ، چنانچہ یہ لوگ ناکام واپس ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت میں کامیاب ہوئے غار ثور سے جب یہ آفتاب وماہتاب نکلے ہیں تو مدینہ چمک اٹھا ، اللہ کا جلال چاروں طرف پھیلا ، چند ہی دنوں میں مکے والوں کو معلوم ہوگیا کہ انہوں نے سخت غلطی کی ہے ، اور وہ تمام برکات سے محروم ہوگئے ہیں ۔