إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اگر نہ نکلو گے خدا تمہیں دکھ کا عذاب کرے گا ، اور تمہارے سوا اور لوگ بدل لائے گا ، اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے ، اور اللہ ہر شئے پر قادر ہے (ف ١) ۔
تخلف گناہ ہے ! : (ف ١) غزوہ تبوک میں کچھ لوگ پیچھے رہ گئے تھے ، ان آیات میں ان کو مخاطب فرمایا ہے ، کہ جب جہاد کا نون عام ہوجائے تمہیں تخلف کی اجازت نہیں ، انداز بیان میں بہت زور ہے ، یوں سمجھ لیجئے ، خطبہ حرب ہے ، ہر شخص کو پکار کر کہا ہے کہ جہاد سے پیچھے نہ رہو ، جب اللہ تمہیں دعوت ایثار دیتا ہے ، تو تخلف کیسا ، کیا دنیا کی حقیر زندگی پر قانع ہوگئے ؟ کیا آخرت میں شہداء کے درجات سے آگاہ نہیں ؟ اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ اللہ کی نصرت تمہاری زہین منت نہیں ، تمہیں معلوم ہے کہ جب رسول یکہ وتنہا مکہ سے نکل کھڑے ہوئے تھے ، اور تاریک غار کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا تھا ، اس وقت ہم نے ان کی مدد کی ، اور کفار کی نظروں سے انہیں بچائے رکھا ۔ مقصد یہ ہے کہ اب بھی وہ رسول کی نصرت پر قادر ہے (آیت) ” ثانی اثنین “ سے مراد حضرت صدیق ہیں ۔ جو ہجرت میں آپ کے رفیق سفر تھے ، غار میں حضرت صدیق (رض) عشق نبوی کی وجہ سے گھبرا رہے تھے کہ کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی گرفت میں نہ آجائیں ، اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوابا کہا (آیت) ” ان اللہ معنا “ یعنی اللہ کی نصرتیں ہمارے شامل حال ہیں ، تم بےفکر رہو ۔ بعض کوتاہ اندیشوں نے یہ سمجھا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اپنی گرفتاری کا ڈر تھا ، کمبخت یہ نہیں سوچتے کہ جس نے عمر (رض) پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت کی ، جو سب کچھ چھوڑ کر گھر سے نکلا ہے اسے اپنی نسبت کیا خوف ہو سکتا ہے اگر صدیق کی گھبراہٹ اپنی وجہ سے ہوتی تو کہا جاتا ، ان اللہ معک ، کہ گھبراؤ نہیں ، تمہارا خدا تمہارے ساتھ ہے ، کہا یہ گیا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی تجھ کو بنائے محبت میری گرفتار کا ڈر ہے اس کو دل سے نکال دے ،