سورة البقرة - آیت 120

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور یہودی (ف ٣) اور نصاریٰ تجھ سے کبھی راضی نہ ہوں گے ، جب تک تو ان کے دین کے تابع نہ ہو ، تو کہہ کہ ہدایت وہی ہے جو اللہ کی ہدایت ہے ، اور اگر تو علم پانے کے بعد ان کی خواہشوں کے تابع ہوگا تو اللہ کے ہاتھ سے تیرا کوئی حامی اور مددگار نہ ہوگا ۔ (ف ١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف3) یعنی یہودی اور عیسائی اپنے غلط عقائد پر قانع ہیں ، چاہتے ہیں کہ آپ انکی گمراہیوں کا ساتھ دیں ، مگر یہ کیسے ممکن ہے ، آپ کا یہ منصب نہیں کہ آپ ان کے خیالات کو کوئی وقعت دیں ۔ (ف1) وہ جن کو کتاب دی گئی اور وہ اسے پڑھتے ہیں ، اس کے مصداق کون لوگ ہیں ؟ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے ، بعض کے خیال میں اس سے مراد مسلمان ہیں ، کیونکہ اس کے بعد فرمایا ہے کہ یہی لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے بعد یہ فرمایا کہ جو شخص انکار کرے گا ‘ وہ خائب وخاسر رہے گا ، ظاہر ہے کہ قرآن حکیم کے سوا کوئی کتاب اس درجہ شائستہ عمل نہیں کہ اسے چھوڑ کر خسران لازمی طور پر ہو ، بعض کی رائے ہے کہ ” کتاب “ سے مراد توریت وانجیل ہے ، آیات کا سیاق وسباق یہی بتاتا ہے کہ اس صورت میں مرقومہ بالاشبہات کا جواب یہ ہوگا کہ توراۃ وانجیل گو انسانی وبشری دستبرد سے محفوظ نہیں ، دونوں محرف ومبدل ہیں تاہم ان میں اتنی سچائیاں ضرور ہیں کہ یہودی وعیسائی فراخ دلی اور تعمق سے کام لیں تو پھر ان میں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہ رہے اور وہ اسلام و ایمان کے زیادہ قریب ہوجائیں گے ، وجہ یہ ہے کہ قرآن اس صداقت مثقلہ اور حق مجرد کا نام ہے جس کا انکار ہر اس شخص کے لئے ناممکن ہے جسے ذرا بھی الہامی کتب سے ذوق وعقیدت ہے ، اسی وجہ سے قرآن حکیم کہتا ہے کہ اہل کتاب اگر اپنی ہی کتابوں کو بغور پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسلام سے دور رہیں ۔ حل لغات : وَلِيٍّ : دوست