وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اہل کتاب میں بہت لوگ ہیں جو بعد اس کے کہ ان پر حق ظاہر ہوچکا ، اپنے دل میں حسد کرکے چاہتے ہیں کہ کسی طرح پھیر کر تم کو مسلمان ہوئے پیچھے کافر کردیں ، سو تم درگذر کرو اور خیال میں نہ لاؤ ، یہاں تک کہ خدا اپنا حکم بھیجے ، بیشک خدا ہر شئے پر قادر ہے (ف ١) ۔
(ف ١) مخاض بن عاذ وراء اور زید بن قیس یہودی نے جب دیکھا کہ غزوہ احد میں عارضی شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) اور حضرت عمار (رض) سے کہا ، آؤ پھر سے یہودی ہوجاؤ ، کیوں ہزیمت اٹھاتے ہو مسلمان رہ کر حضرت عمار (رض) نے فرمایا ، تمہارے مذہب میں نقض عہد کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ؟ انہوں نے کہا ۔ بہت بری نظر سے ، فرمایا تو سن رکھو ، میں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جیتے جی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیزار نہیں ہونے کا ، حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا ، میں تو بہرحال اللہ سے خوش ہوں ، اس کے دین سے خوش ہوں ‘ اس کی کتاب سے خوش ہوں ، اس کے بنائے ہوئے قبلہ سے خوش ہوں اور مسلمانوں کی ہمہ گیر اخوت پر خوش ہوں ، یہ سن کر وہ مایوس ہوگئے بہرحال ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بدظنی پیدا کی جائے ، ان آیات میں فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ، تم ان سب سیاہ کاریوں کو برداشت کرو اور معاف کر دو وقت آئے گا کہ حق خود بخود ظاہر ہوجائے گا ، اس لئے کہ اللہ کے لئے حالات کا بدل دینا کوئی مشکل نہیں ۔