وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور اگر ہم چاہتے تو بوسیلہ ان آیات کے ہوگا درجہ بلند کرتے ، لیکن وہ زمین کی طرف جھکا اور اپنی خواہش کا پیرو ہوا ، سو اس کی مثال کتے کے ہے اگر تو کتے پر بوجھ لادے تو وہ ہانپتا ہے اور جو اسے چھوڑ دے تو بھی ہانپتا ہے ، یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ، سو تو قصے سنائے جا ، شاید وہ فکر کریں (ف ١) ۔
(ف ١) معلوم ہوتا ہے یہودیوں میں کوئی شخص مشہور تھا ، جسے اللہ تعالیٰ نے علم وفضل سے نوازا مگر جب اس نے رجوع عام دیکھا تو پاؤں پھسل گئے ہواوہوس کی پیروی شروع کردی ، نتیجہ یہ ہوا ، کہ اللہ کی نظروں سے گر گیا ، قرآن حکیم نے نام نہیں لیا ، مقصود حاصل ہے ، یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جو علم وسلوک کی چند منزلیں طے کرلینے کے بعد گمراہ ہوجاتے ہیں نفس کی خواہشیں ان پر غالب آجاتی ہیں ، وہ روحانی رفعت کی بجائے نفسانی پستی کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ یہود کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوگئی تھی اسی لئے فرمایا (آیت) ” ذالک مثل القوم الذین کذبوا بایتنا “۔ یعنی بالکل یہی حالت ان مکذبین کی ہے ، یا تو شریعت کے طالب ہیں ، کتاب الہی کے حافظ وعالم ہیں ، یا پھر ہوائے نفس کی پیروی ہے گویا کسی کروٹ چین نہیں ، ان کی حالت نفسی کتے کی طرح ہے کہ ہر حالت میں پریشان ہیں ، نہ عمل کی توفیق میسر ہے نہ فسق وفجور سے مطمئن ۔