سورة الاعراف - آیت 173

أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

یا کہو کہ شرک تو ہمارے باپ دادوں نے ہم سے پہلے نکالا ہے ، اور ہم ان کے بعد کی اولاد ہیں ، تو کیا تو جھوٹوں کے کام پرہمیں ہلاک کرتا ہے ؟۔ (ف ١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

عہد فطرت : (ف1) ان آیات میں بتایا کہ عہد ومیثاق کا تعلق فطرت وتکوین سے ہے ، انبیاء محض اس لئے مبعوث ہوتے ہیں ، تاکہ وہ اس عہد کو تاکید وتوضیح کے ساتھ ان کے سامنے دوبارہ پیش کردیں ، ورنہ انسانوں کے ضمیر میں اور ان کی گھٹی میں توحید اور اعتراف حق ودیعت ہے ، یعنی اللہ نے جب سے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی رگ رگ اور نس نس سے اعتراف و ایمان کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، ناممکن ہے ، کہ انسان اللہ سے بےنیاز ہو سکے ، اور اس کی احتیاج کو برملا محسوس نہ کرے ۔ عہد الست سے یہی مقصود ہے ،﴿ قَالُوا بَلَى﴾میں قول زبان حال سے تعبیر ہے ، جس طرح کہا جاتا ہے ، اذا متلاء الحوض قال قطنی ۔ یعنی انسانی بناوٹ انسانی اعضاء وجوارح میں قدرت الہی کا مظاہرہ ، بند بند اور جوڑ جوڑ میں حکمت ودانائی کا ظہور ، یہ اس بات کا بولتا ہوا ثبوت ہے کہ غالب ودانا خدا کی یہ سب صنعت گری ہے ۔