سورة الاعراف - آیت 171

وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ہم نے جڑ سے اکھاڑ کے پہاڑ ان پر اٹھایا تھا ، جیسے کہ سائبان ہوتا ہے ، اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان پر گر پڑے گا (ہم نے کہا تھا) کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے اسے زور سے پکڑو ، اور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد کرتے رہو) شاید تم ڈرو (ف ١) ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) یعنی عہد قدیم میں ان لوگوں سے وعدہ لیا گیا تھا کہ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہیں ، اس سے استفادہ کریں ، اور دل کی حالتوں کو سنواریں ، مگر ان لوگوں نے ہر عہد کو ٹھکرایا ، اور میثاق کی مخالفت کی ، پہاڑ کو سر پر اٹھا کر کھڑا کرنے میں حکمت یہ تھی کہ کتاب کی مخالفت سے جو نتائج پیدا ہونے والے ہیں ، ان کو ابھی سے دیکھ لیں ، مقصد یہ تھا کہ اگر تواریت کو یہ پس پشت ڈال دیں گے ، تو مصیبتوں کے پہاڑ ان کے سروں پر ٹوٹ پڑیں گے ، اور یہ مقابلہ نہ کرنے پائیں گے ، اور اگر اطاعت وشعار رہیں گے تو پہاڑ کی سی بلندی ورفعت انہیں حاصل ہوگی ، غرض جبر اور سختی نہ تھی ، حقیقت واقعی کی طرف اشارہ تھا ، کیونکہ اس میں خدا کی حکمت ہے وہ اگر چاہتا تو تمام دنیا کو اسلام پر جمع کردیتا ، مگر اللہ کی حکمت ودانائی نے ایسا نہیں چاہا ، تاکہ لوگ آزادی سے اسلام کی برکتوں سے متمتع ہوں ۔ حل لغات : نتقنا : نتق کے معنی کھینچنے اور اکھاڑنے کے ہیں ، علامہ راغب کہتے ہیں ، نتق الشیء حذبہ ونترعہ ، بعض لوگوں نے ورفعنا فوقھم الطور کے معنی جو بلند کرنے کے کئے ہیں ، غلط ہیں صحیح معنی بلندی پر لاکھڑا کرنے کے ہیں ، جیسا کہ نتقنا سے معلوم ہوتا ہے ۔