قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
تو کہہ لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں ، اس اللہ کا جس کی سلطنت آسمان اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی جلاتا اور مارتا ہے ، سو تم اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لاؤ(ف ١) ۔ جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے ، اور تم اس کے تابع ہوجاؤ ، شاید تم ہدایت پاؤ(ف ٢) ۔
رسول امی : (ف ١) توراۃ وانجیل میں بےشمار پیشگوئیاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مرقوم ہیں ، یہودی خوب جانتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعاوی میں سچے ہیں ، منصف عیسائی بھی آپ کے مرتبہ ومقام سے آگاہ تھے ورقہ بن نوفل کا اعتراف ، عبداللہ بن سلام کا اسلام اس حقیقت پر گواہ ہے ۔ توراۃ میں سرخ وسپید ، نبی کا ذکر ہے ، ” محمدیم “ کا لفظ موجود ہے دس ہزار قدسیوں کا حوالہ ہے : آتشین شریعت ، اور نئے یروشلم ، کی پیشگوئی ہے ، یہ بھی لکھا ہے بحری ممالک اس کی راہ تکیں گے ، انجیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) دنیا کی سردار کی خوشخبری سناتے ہیں اور برنباس کی انجیل میں جو مسیح کا حواری تھا ، صاف طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر پیشگوئی کی گئی ہے ۔ قرآن کا یہ دعوے بالکل بجا اور درست ہے کہ توراۃ وانجیل میں امی رسول کے لئے پیشگوئیاں موجود ہیں ، ” سرخ وسپید “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کون ہو سکتا ہے ؟ محمد کس کا نام ہے ، دس ہزار صحابہ فتح مکہ کے وقت کس کے ساتھ تھے ؟ آتشین شریعت کس کی پیش کردہ ہے ؟ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کو قبلہ قرار دے کر نئے یروشلم کو آسمان سے نہیں اتارا ، اور پھر کائنات میں سردار سردار دو جہان کے سوا اور کون ہے ؟ آپ کی خصوصیات حسب ذیل ہیں : ١۔ خیر اور نکوئی کو دنیا کے کناروں تک پھیلاتا اور برائی کے خلاف ہمہ گیر جہاد کرنا ۔ ٢۔ طیبات اور پاکیزہ اشیاء کی ترویج ، خبائث اور مضر صحت واخلاق چیزوں کو حرام وناقابل استعمال قرار دینا یعنی ایک پاکیزہ اور مطہر شریعت کی تاسیس ۔ ٣۔ دنیا میں رسم ورواج کے بوجھ کو ہلکا کرنا ، جہالت وتقلید کے طوق کو گردن سے دور کرنا ، اور انسانوں کو نہایت آسان ٹھیٹ اور خالص دین کی طرف بلانا ۔ (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ اگر تم ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہو ، روحانی مدارج میں ترقی چاہتے ہو ، اور یہ چاہتے ہو کہ خدا کی رضا سے بہرہ اندوزی کا موقع ملے ، تو پھر ضروری ہے کہ اس رسول امی کو مانو ، اس کے نقش قدم پر چلو ، اس کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ اور نمونہ قرار دو کیونکہ اس کے پاس نور ہے ، ہدایت ہے راہنمائی ہے روشنی ہے فلاح وبہبود ہے ۔