وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے مقررہ وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے رب تو اپنے تئیں مجھے دکھلا کہ مین تیری طرف نگاہ کروں ، فرمایا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا لیکن پہاڑ کی طرف دیکھ ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا ، تو تو بھی مجھے دیکھ سکے گا ، پھر جب اس کا رب پہاڑ پر ظاہر ہوا تو پہاڑ کو پارہ پارہ کردیا ، اور موسیٰ بہیوش ہو کر گر پڑا پھر جب ہوش میں آیا ، تو کہا ، تو پاک ہے ، میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں ، اور میں پہلا مومن ہوں (ف ٢) ۔
دیدار یار : (ف ٢) اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مکالمہ کے شرف سے نوازا ، یہاں دل میں یہ خیال چٹکیاں لے رہا تھا ، کہ گفتگو کافی نہیں ، دیدار چاہئے ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” لن ترانی “ کہ یہ آنکھیں کیونکر تجلیات کو جذب کرسکتی ہیں ، مگر وہاں اصرار وشوق کی فراوانی تھی نقاب کے کچھ حصے سرکے ، اور موسیٰ (علیہ السلام) غش کھا کر گر پڑے ، آنکھوں میں تاب و تواں کہاں کہ برداشت کرسکیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا ، اور موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ اس ذوالجلال کو دیکھنا ناممکن ہے اور اس نوع کا مطالبہ اس کے حسن وجلال کی توہین ہے فورا ” تبت “ کی صدائے ندامت فضاء میں گونجی اور دلائل وبراہین کی آیتوں پر اکتفاکر لیا گیا ۔