سورة الاعراف - آیت 137

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور اس قوم کو جو کمزور گنی جاتی تھی اس سرزمین کی مشرقوں اور مغربوں کا وارث کیا جس میں ہم نے برکت دی ہے (ملک کنعان) اور بنی اسرائیل کے حق میں بہ سبب اس کے کہ انہوں نے صبر کیا تیرے رب کا بھلائی کا وعدہ پورا ہوا ، اور جو کچھ فرعون اور اس کے لوگوں نے بنایا تھا اور جو کچھ ٹٹیوں چڑھا یا تھا ہم نے سب کچھ برباد کردیا ۔(ف ٢)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ناتوانوں کی توانائی : (ف2) یعنی بالآخر جو کمزور ونزار تھے ضعیف وناتواں تھے وہ صبر واستقلال کیو جہ سے توانا اور قوت والے ہوگئے جن کے لئے ارض مصر میں رہنا مشکل تھا وہ شام کے مشرق ومغرب میں پھیل گئے ، جو غلام تھے انہیں آزادی اور بادشاہت بخشی گئی وہ جو بادشاہ تھے ، انہیں دریائے قلزم میں غرق کردیا ، کیوں ؟ اس لئے کہ بنی اسرائیل نے صبر واستقلال سے کام لیا اور اس لئے کہ فرعون نے سرکشی اختیار کی ۔