سورة الاعراف - آیت 88

قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اس کی قوم کے متکبر سردار بولے ، یا تو تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ ، ورنہ ہم تجھے اے شعیب (علیہ السلام) مع تیرے ساتھیوں کے اپنے شہر سے نکال دیں گے (ف ١) ۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا ، کہ کیا اس صورت میں بھی لوٹ آئیں جبکہ ہم اس سے بیزار ہیں ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

آخری فیصلہ : (ف ١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتوں کو ٹھکرا دیا گیا ، اور صاف صاف کہہ دیا گیا ، اگر آپ ہماری خیانتوں اور بددیانتیوں کی تائید نہیں کریں گے تو ہم اپنی بستی سے تمہیں نکال باہر کریں گے گویا برائیوں سے روکنا برائی ہے ، اور ایسا گناہ ہے جو ناقابل عفو اور شائستہ تعزیر ہے ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا یہ ہرگز نہیں ہونے کا کہ ہم تمہارے مسلک کو قبول کرلیں ، اور دعوت حق سے روگردانی کرلیں ، اس کا مطلب یہ ہے ، کہ ہم نے معاذ اللہ ، اللہ پر افتراء کیا ہے ، کیا تم سمجھتے ہو ، ہم پھر اس گمراہی میں آپھنسیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے کمال عنایت سے ہمیں نجات دی ہے ، غرض یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا جو قدم حق کی تائید کے لئے اٹھتا ہے ، وہ پھر واپس نہیں ہوتا ، اور وہ پورے استقلال کے ساتھ قوم کی سرکشی اور عداوت کا مقابلہ کرتے ہیں ، وطن وقوم کی محبت ان کے پاؤں میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی وہ اللہ کی جانب سے ایک فوق الادراک قوت لے کر دنای میں معبوث ہوتے ہیں ، کوئی دھمکی اور کوئی ترغیب ان کو جادہ مستقیم سے نہیں ہٹا سکتی ، یہ مخالفین کی بھول تھی ، کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اخراج کی دھمکی دے رہے تھے ، آخر میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم کی جانب سے سختیاں بڑھ رہی ہیں اور ان میں قبول حق کی ذرہ برابر استعداد نہیں ، تو اللہ سے فیصلہ چاہا ، اور درخواست کی کہ اے اللہ ہم میں اور مخالفین میں ایک سچا فیصلہ فرما تو بہترین حاکم ہے ۔ دعا کے بعد فیصلے کی ساعت آپہنچی کیونکہ انبیاء اس وقت یہ بد دعا کرتے ہیں ، جبکہ قوم میں انتہائی شقاوت قلبی پیدا ہوجائے اور جب کہ اس کا مٹ جانا ہی انسب ہو اللہ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی سن لی ، اور زمین کانپ اٹھی ، زلزلہ آیا ، اور چشم زدن میں شعیب (علیہ السلام) کی قوم برباد ہوگئی ، جیسے صفحہ ہستی پردہ کبھی موجود ہی نہ تھی ،