سورة البقرة - آیت 93

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا اور تمہارے اوپر طور (پہاڑ) اونچا کیا کہ قوت سے پکڑو ، جو ہم نے تم کو دیا ہے اور سنو ، وہ بولے ، ہم نے سنا اور نہ مانا ، (ف ٣) اور کفر کے سبب ان کے دلوں میں تو بچھڑا سمایا ہوا تھا ، تو اگر تم مومن ہو تو تمہارا ایمان تمہیں بری بات سکھلا رہا ہے ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) (آیت) ” سمعنا وعصینا “ کے معنی یہ نہیں کہ وہ ایک دم سنتے بھی تھے اور انکار بھی کردیتے تھے ، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ساری مزہبیت سماع تک محدود تھی ، جہاں عمل کا وقت ہوتا ، وہ یکسر عصیاں ہوجاتے ، (آیت) ” سمعنا وعصینا “ ان کی ساری تاریخ مذہبیت کی پوری پوری اور صحیح تفسیر ہے ، ہمیشہ وہ باتوں اور موشگافیوں کے شائق رہے اور عمل سے بیزار ، مختصر سے مختصر لفظوں میں یہودیوں کی ذلت ونفسیات کا جو مرقع قرآن حکیم نے ان دو لفظوں میں کھینچا ہے وہ ناقابل اضافہ ہے ۔ حل لغات : الحق : سچا معقول اور مفید مصلحت ۔