وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ان کے دلوں کی خفگی بھی ہم کھینچ کے نکال ڈالیں گے ، ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، اور کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس جنت کی راہ بتائی تھی ، حالانکہ ہم ہرگز نہ پاسکتے تھے اگر اللہ ہمیں راہ نہ بتاتا ، ہمارے رب کے رسول ضرور سچی بات لائے تھے ، اور ان کو آواز دی جائے گی کہ یہی جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے بدلے وارث ہوئے۔ (ف ١)
(ف1) ﴿غِلٍّ﴾کے معنی باہمی عداوت ودشمنی رکھنے کے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ جنت کی زندگی میں دلوں میں غبار نہیں رہے گا دل صاف ہوں گے اور ہر شخص سچی اور معصوم زندگی بسر کرے گا ۔ ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ﴾سے غرض یہ ہے ، کہ دنیا میں بھی دل آپس میں صاف رہنے چاہئیں اگر یہاں کدورت سے عداوت وبغض کی آگ سینے میں بھڑک رہی ہے ، تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا کے قرب کی استعداد ہم میں موجود نہیں ۔