سورة الاعراف - آیت 26

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے بنی آدم (علیہ السلام) ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے جو تمہاری شرمگاہیں چھپاتا ہے ‘ اور زینت اور پرہیزگاری کا لباس ، بہتر ہے ‘ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں ، شاید وہ لوگ دھیان کریں ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(26۔41) اب تم اے بنی آدم اپنی بھی سنو ! دیکھو ہم (اللہ) نے تم پر کتنا احسان کیا کہ تمہاری پردہ پوشی کی حاجت سمجھ کر تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرمگاہیں ڈھانپتا ہے اور اس ظاہری شرمگاہ کے علاوہ ایک اندرونی شرمگاہ بھی ہے جس کا علاج پرہیزگاری ہے دراصل یہی پرہیزگاری ہی سب لباسوں سے بہتر ہے۔ کیونکہ ظاہری لباس تو چند روزہ آرام دہ اور پردہ پوش ہیں اور پر ہزیگاری کا لباس دائمی فرحت بخش ہے یہ پرہیزگاری احکام الٰہی کی تعمیل سے ملتی ہے۔ یہ واقعات ہم ان کو سناتے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت یاب ہوں۔ یہ بھی ان کو سنا اے بنی آدم ہوش سے رہئیو۔ تم سن چکے ہو کہ شیطان نے تمہاری بابت قسم کھائی ہوئی ہے کہ ضرور ہی تم کو گمراہ کرے گا۔ پر دیکھنا کہ تم کو سیدھی راہ سے نہ بہکاوے جیسا تمہارے ماں باپ آدم و حوا کو جنت سے اس نے نکالا تھا۔ ان دونوں سے لباس اتارتا تھا کہ ان کی شرمگاہیں انہیں برہنہ کر کے سامنے دکھا دے یعنی ایسے کام ان سے اس نے کرائے کہ وہ کام اس بے عزتی اور ذلت کے موجب ہوئے۔ بالکل چوکنا ہو کر اس سے رہیو۔ کیونکہ وہ اور اس کی ذریت تم کو ایسی گھات سے دیکھ رہے ہیں کہ اس گھات سے تم ان کو نہیں دیکھتے۔ باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی جو لوگ سچی تعلیم کو نہیں مانتے ہم شیاطین کو ان کے دوست بنا دیتے ہیں کہ ان سے من مانی حرکتیں کرائیں اور آخر ان کو مستوجب سزا بنائیں۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ جی کھول کر بدکاریاں کرتے ہیں۔ اور لطف یہ کہ جب کوئی کام بے حیائی کا کرتے ہیں جیسے ننگے ہو کر کعبہ کا طواف یا جیسے ہندوستان کے ہندو ہولیوں کے ایام وغیرہ میں کرتے ہیں تو منع کرنے پر کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی پر پایا ہے کیا ہم ایسے سپوت ہیں کہ اپنے باپ دادا کے طریق کو چھوڑ دیں حالانکہ وہ ہم کو اس پر لگا گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو ہمارے باپ دادا بھلا ایسا کیوں کرتے کیا وہ احمق تھے کیا ان کو سمجھ نہ تھی کیا وہ دیندار نہ تھے۔ کیا وہ سب کے سب جہنمی تھے غرض اسی طرح کی بہت سی طمطراقیاں کرتے ہیں تو ان سے کہہ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کرنے کا حکم نہیں دیتا جیسے کہ تم کہہ رہے ہو۔ کیا جن باتوں کو تم نہیں جانتے وہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہو۔ تمہیں یہ کیونکر معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اس بے حیائی (برہنہ طواف کرنے) کا حکم دیا ہے۔ یہ تو سراسر افترا ہے۔ تو کہہ آئو میں تم کو بتلائوں اللہ تعالیٰ نے کن باتوں کا تم کو حکم دیا ہے میرے پروردگار نے سب سے اول ظاہر و باطن تہذیب اور شائستگی کا حکم دیا ہے اور اس سے بعد یہ حکم ہے کہ ہر نماز کے وقت مستعد ہوجایا کرو اور دلی اخلاص سے اس کی اطاعت کرتے ہوئے اسے پکارا کرو۔ جی میں اس بات کا خیال رکھو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم کو اکیلے تن تنہا پیدا کیا ہے اسی طرح تم اس کی طرف پھیرے جائو گے اس روز کی فکر کرنی تم کو ضروری ہے باقی باتیں تو خیر گزر جائیں گی جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم کو اکیلے اکیلے پیدا کیا اسی طرح تم اس کی طرف اکیلے اکیلے لوٹو گے تم میں سے ایک فریق کو ہدایت کی ہے۔ وہ اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور ایک جماعت کو ان کی بد راہی کی وجہ سے گمراہی چمٹ رہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا دوست اور حمائتی بنا رکھا ہے اور ان کے بہکانے سے جو برے کام کرتے تھے کئے اور الٹے اپنے آپ کو ہدایت یاب بھی جانتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی تم دو گروہ ہو گے اور اپنے اپنے اعمال کا ثمرہ پائو گے اسی لئے تم سب کو کہا جاتا ہے اے آدم کے بیٹو ! مشرکوں کی طرح بدتہذیب نہ بنو) تہذیب کے معنے میں انصاف بھی داخل ہے۔ ( کہ ننگے برہنہ طواف کرنے لگو۔ بلکہ نماز کے وقت اپنی سجاوٹ کا لباس پہنا کرو جس سے ایک شریف بھلے مانس معلوم ہو۔ یہ بھی ضرور نہیں کہ اس قدر زینت کرو کہ حد سے بڑھ جائو نہیں بلکہ مناسب لباس پہنو اور کھائو پیو اور فضول خرچی اور اسراف کسی کام میں نہ کرو کسی حال میں حد سے نہ بڑھو۔ اللہ تعالیٰ کو مسرف اور حد سے بڑھنے والے کسی طرح نہیں بھاتے تو ان سے کہہ کہ اللہ تعالیٰ کو دلی اخلاص پسند ہے ظاہری زینت کا ترک کرنا اس کا حکم نہیں بھلا جس زینت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا اس کو اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیا ہے؟ پس خلاصہ یہ کہ انسان کی فطری خواہشات کا روکنا کوئی دینداری کی بات نہیں اگر فطری خواہشات کا اجراء اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوتا تو وہ انسان میں ایسی خواہشات پیدا کیوں کرتا۔ تم نے نہیں سنا کہ سعدی مرحوم نے کیا کہا ہے ” درویش صفت باش کلاہ تتری دار“ ہاں یہ ضروری ہے کہ خواہشات نفسانی کے پورا کرنے میں شریعت کے تابعدار ہو تاکہ ان نعمتوں سے آخرت میں محروم نہ ہوجائو کیونکہ یہ نعمتیں دنیا کی زندگی میں تو ایمانداروں کے لئے مشترک ہیں کافر بھی ان میں شریک ہیں مگر قیامت کے روز خاص کر ایمانداروں کے لئے ہی ہوں گی کافروں کے حق میں حرام۔ پس تم سمجھو اور غور کرو اسی طرح ہم علمداروں کے لئے اپنے احکام مفصل بیان کیا کرتے ہیں کہ وہ بغور نتیجہ پر پہنچیں تو ان سے کہہ کہ زیب و زینت تو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے مباح کی ہوئی ہے اسے تو حرام کہنا اور جائز طور پر بلانیت تکبر و فخر اس کا استعمال منع کرنا صحیح نہیں۔ میرے پروردگار نے صرف ظاہر و باطن کی بے حیائی کو حرام کیا ہے یعنی خلوت جلوت میں حرام کاری اور گناہ دروغ گوئی وغیرہ اور ناحق کی ایک دوسرے پر زیادتی کرنی اور اللہ تعالیٰ کا ساجھی ان چیزوں کو بنانا جن کے ساجھی بنانے کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری یہ سب حرام ہیں اور یہ بھی حرام ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نسبت وہ باتیں کہنے لگو جو خود تم کو بھی یقینا معلوم نہیں صرف سنی سنائیں اٹکل پچو مارتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں فلاں شخص اس کا ساجھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پس جو تجھے حکم پہنچتا ہے ان کو سنا دے اور اگر اس کے مقابلہ میں حسب عادت عذاب کی جلدی چاہیں تو ان کو کہہ دے کہ ہر ایک قوم کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ایک وقت مقرر ہوتا ہے پھر جب ان کا وقت آلگتا ہے نہ وہ اس سے گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اس لئے میں (اللہ) نے پہلے ہی حکم دے رکھا ہوا ہے کہ اے آدم کے بیٹو ! اگر تمہارے پاس تمہیں میں سے میرے رسول آویں جو تم کو میرے احکام سناویں۔ تو سنو ! جو ایمان لائیں گے اور صلاحیت اختیار کریں گے ان پر نہ تو خوف ہوگا۔ اور نہ کسی نقصان اعمال سے رنجیدہ اور غمزدہ ہوں گے اور جو لوگ ہمارے حکموں سے انکاری ہوں گے اور تکبر کریں گے وہی جہنمی ہو کر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے پس تم خود ہی بتلائو کہ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افترا کرے یعنی جھوٹا دعویٰ نبوت کرے اور الہام کا مدعی ہو یا اس کے حکموں کو جھٹلاوے جیسے یہ لوگ قرآن کے منکر ہیں تو اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم ہے؟ یقینا نہیں۔ انہی کو الٰہی کتاب میں سے عذاب کا حصہ پہنچے گا اور جب ان کے پاس ہمارے فرستادہ فرشتے ان کو فوت کرنے کے لئے آویں گے تو وہ ان کے ذلیل کرنے کو کہیں گے اور پوچھیں گے کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا بوقت حاجت بلایا کرتے تھے وہ آج کدھر چلے گئے؟ وہ کہیں گے آج تو وہ ہم سے ایسے غائب غُلّا ہوگئے کہ ہماری سنتے ہی نہیں اور اپنے آپ پر خود گواہی دیں گے اور اقرار کریں گے کہ بے شک ہم کافر تھے اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جو تم سے پہلے جن اور انسان کفر میں گذر چکے ہیں انہیں میں آگ کے اندر تم بھی داخل ہوجائو۔ وہاں دوزخ میں یہ حال ہوگا کہ جب کبھی کوئی قوم اس میں جائے گی تو اپنے ساتھ والوں کو جن کی صحبت بد سے بگڑی ہوگی لعنت کرے گی حتیٰ کہ جب سارے ہی اس میں جمع ہوجائیں گے تو پچھلے پہلوں کو یعنی جو دنیا میں پیچھے آئے ہوں گے اور پہلے لوگوں کی غلط راہ پر چلے ہوں گے ان کے حق میں کہیں گیا للہ تعالیٰ! تو جانتا ہے انہوں نے ہی ہم کو گمراہ کیا تھا کیونکہ اگر یہ بدطریق نہ چھوڑ جاتے تو ہم کیوں گمراہ ہوتے۔ پس تو ان کو آگ میں ہم سے دگنا عذاب دے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا۔ تم سب کو دگنا دگنا ہے پہلوں کو تو اس لئے کہ وہ ایک تو خود گمراہ ہوئے دوسرے برا طریق اپنے پیچھے چھوڑ گئے پچھلوں کو اس لئے کہ ایک تو انہوں نے برے کام کئے دوم اس لئے کہ بے سوچے سمجھے پہلے لوگوں کی بدروش لے بیٹھے پس درحقیقت تم دونوں کو دہرا عذاب ہے لیکن تم ایک دوسرے کی تکلیف نہیں جانتے۔ اور پہلے لوگ جب پچھلوں کی یہ عرضی سنیں گے تو پچھلوں سے کہیں گے کہ تم کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں کہ اس کے سبب سے تم کو تخفیف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا جواب بھی تم نے سن ہی لیا ہے پس اپنا سا منہ لے کر اپنی بدکاری کے عوض عذاب کا مزہ چکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا ہوا ہے۔ کہ ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ ہمارے حکموں سے انکاری ہوں اور تکبر کریں بعد مرنے کے ان کی روحوں کے لئے نہ تو آسمان کے دروازے کھلتے ہیں کہ باعزاز ان کی آئو بھگت ہو اور نہ وہ جنت میں داخل ہونے پاتے ہیں یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے گذر جائے یعنی جسات یہ مشکل بلکہ محال ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے اسی طرح ہمارے حکموں کی تکذیب کرنے والوں کا جنت میں جانا عادۃً محال ہے اسی طرح مجرموں اور نالائقوں کو ہم سزا دیا کرتے ہیں ان کے لئے آگ ہی کا بچھونا ہوگا اور آگ ہی کا اوپر سے اوڑھنا ہم اسی طرح ظالموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں