وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور ہم نے تمہیں پیدا کیا ، پھر تمہیں صورت دی پھر ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، سو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس سجدہ کرنے والوں میں نہ تھا (ف ١) ۔
(11۔25) اور سنو ! ہم ہی نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ مدت دراز تک اس کا خمیر ہوتا رہا پھر ہم ہی نے تمہاری یعنی تمہارے باپ آدم کی صورت مناسب بنائی۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو تعظیمی سجدہ یعنی سلام کرو پس سب نے کیا۔ مگر ابلیس تعظیم کرنے والوں میں نہ ہوا اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں نے جب تجھے حکم دیا تو پھر تجھے تعظیم کرنے سے کس نے روکا۔ کیا یہ تعظیم شرک تھی؟ بولا شرک تو نہیں البتہ وجہ یہ ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ روشن سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آگ مٹی سے لطیف اور پاک شفاف عنصر ہے۔ پس میں باوجود افضل ہونے کے مفضول کی تعظیم کیوں کروں؟ چونکہ یہ قیاس اس کا مقابلہ نص کے تھا جو کسی طرح سے جائز نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہا پس تیری سزا یہ ہے کہ تو اس جماعت سے نکل جا۔ کیونکہ ان میں رہ کر تجھے ایسی شیخی بگھارنی مناسب نہ تھی پس تو نکل جا کیونکہ تو ذلیل ہے اور یہ ایک معزز جماعت ہے۔ بے حیا نے پھر بھی شیخی بھگارنی نہ چھوڑی۔ بولا چونکہ آدم کی ذریت پھیلے گی اور ان کے نیک و بد کا حساب بھی ایک روز ہوگا پس ان کے جی اٹھنے کے دن تک مجھے مہلت عنایت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کہا تجھے مہلت ہے۔ بولا چونکہ تو نے مجھے ان کی وجہ سے اپنی جناب سے درکایا ہے میں ان کو روکنے کے لئے تیری سیدھی راہ میں بیٹھوں گا یعنی ان کو تیری طرف آنے سے روکوں گا پھر ان کے آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں سے آئوں گا یعنی ایک ایک آدمی کے بہکانے کو اس کے باپ دادا‘ بیٹے بیٹیاں‘ دوست آشنا وغیرہ کو ذریعہ بنائوں گا۔ غرض کئی ایک طرح کے اسباب بہم پہنچائوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا لغو باتیں نہ بنا ذلیل و خوار ہو کر اس جماعت سے نکل جا۔ سن رکھ تو ہو یا کوئی جو ان میں سے تیرے پیچھے ہوگا اور تیرے دام میں پھنسے گا میں تم سب کو جہنم میں ڈالوں گا پس چپ رہ اور چلا جا اور آدم کو حکم دیا کہ اے آدم تو اور تیری بیوی باغ میں بسو ) اس امر کے متعلق کہ یہ باغ زمین پر تھا یا آسمان پر کوئی آیت یا حدیث مرفوع نہیں ہے البتہ ایک حدیث میں بنی اسرائیل سے روایت کی اجازت آئی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج یعنی بنی اسرائیل سے صحیح روایت جو قرآن سے کسی طرح مخالف نہ ہو بیان کرلیا کرو۔ اگر اس اجازت پر بنا کر کے موجودہ توریت سے اس کا پتہ دریافت کریں تو باغ عدن معلوم ہوتا ہے چنانچہ موجودہ توریت کی پہلی کتاب پیدائش باب دوم کا صریح مضمون ہے۔ (منہ) ( اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھائو اور اس درخت وغیرہ کے نزدیک نہ جانا ورنہ تم نافرمانوں سے ہوجائو گے پھر شیطان نے ان دونوں خاوند بیوی کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ان سے مخفی تھیں ان کے سامنے برہنہ کر دکھاوے کیونکہ اس درخت کا نام نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا۔ اسی کے کھانے سے ان کو سمجھ آئی کہ ہم برہنہ ہیں ہم کو ننگا نہ رہنا چاہئے اور شیطان نے بہکانے کو ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس درخت کے پھل کھانے سے تم کو محض اس لئے منع کیا ہے کہ تم اس کے کھانے سے فرشتے نہ بن جائو یا ہمیشہ اسی باغ میں نہ رہ جائو کیونکہ اس درخت کی تاثیر ہی یہی ہے کہ جو کوئی کھاتا ہے وہ یا تو فرشتہ بن جاتا ہے یا دائم اسی جنت میں اقامت گزین ہوتا ہے اور اس امر پر یقین دلانے کو ان سے قسم کھا کر کہتا رہا کہ واللہ تعالیٰ باللہ تعالیٰ میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں پھر دھوکہ سے ان کو پھسلا ہی لیا۔ پس اس درخت کو انہوں نے کھایا ہی تھا کہ ان کی شرمگاہیں ان کو دکھائی دینے لگیں۔ اور جب وہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئے جاتے تھے اور وہ باغ کے چوڑے چوڑے پتے اپنے اوپر لپیٹنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کیا میں نے تم کو اس درخت کے پھل کھانے سے منع نہ کیا تھا؟ اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے وہ دونوں خاوند بیوی اپنے قصور کے معترف ہوئے اور بولے اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور نہ رحم کرے گا تو یقینا ہم زیاں کاروں سے ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے کہا اس باغ سے اترے رہو تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت معین یعنی موت تک ٹھکانہ اور سامان ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اسی زمین میں تم زندگی گذارو گے اور اسی میں مرو گے اور مر کر اسی میں سے نکالے جائو گے یہ تو آدم کی سرگذشت تھی