وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا
قسم ہے ہانپ کر دوڑنے والوں (گھوڑوں) کی
(1۔11) اے عرب کے لوگو ! تم اللہ کے وعدے کا انکار کیوں کرتے ہو اتنی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کہ انسان کے نیک وبد کاموں کی جزا وسزا ملنی ضروری ہے ہم تمہیں حلفیہ بتاتے ہیں قسم ہے سر پٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی جو خراٹے سے جاتے ہیں اور قسم ہے پتھر پر ٹاپ مارنے سے آگ چمکانے والوں کی اور قسم ہے جہاد میں صبح کے وقت دشمنوں پر حملہ کرنے والوں کی جو اس وقت ایسی تیزی سے چلنے میں زمین سے غبار اڑاتے ہیں پھر اسی غبار کے ساتھ ہی دشمنوں کی جماعت میں گھس جاتے ہیں ان قسموں کا جواب یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اس کی ناشکری کا کیا ٹھکانہ ہے کھائے پئے رب کا اور گائے کسی اور کا حالانکہ وہ پروردگار ہر آن اس پر نگران ہے اس کی کوئی حرکت یا سکون اس پر مخفی نہیں اور یہ ناشکرا انسان اپنے حق میں ہر طرح کی خیروبرکت کا سخت متمنی رہتا ہے باوجود اس تمنی کے جس سے خیروبرکت ملتی ہے اس سے غافل ہے تو اس کی کتنی بے عقلی اور کیسی غفلت ہے یہ تو ہوئی اس کی اصولی غلطی کہ ایک چیز کا خواہش مند ہے مگر جس سے وہ چیز ملتی ہے اس سے روگردان ہے اس کے علاوہ سنو ! کیا یہ جانتا نہیں کہ جس وقت قبروں میں رکھے ہوئے مردے اٹھائے جائیں گے اور جو ان کے اعمال نیک وبد ہوں گے وہ سارے بلکہ جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے دین کی محبت یا عداوت سب ظاہر کیا جائے گا اس روز ان کا پروردگار رحمن عالم ان کے حال سے خبردار ہوگا کوئی بات اس سے نہ چھپی ہوگی نہ چھپا سکیں گے اللھم ارحمنا یومئذ قرآن مجید میں اعمال بد معاف ہونے کے دو طریق آئے ہیں ایک تو یہ ہے فرمایا اِنْ یَّنْتَہُوْا یَغْفِرْلَھُمْ مَّاقَدْ سَلَفْ (باز آجائیں تو گزشتہ گناہ معاف کئے جائیں گے) دوسرا طریق یہ ہے کہ گناہ سے نیک کام زیادہ کئے ہوں جیسا فرمایا اِنَّ الْحَسََنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ تفسیر میں ہم نے انہی دو طریقوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ١٢ منہ