سورة الشرح - آیت 1

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا ؟

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔8) شان نزول :۔ چند روز وحی بند رہنے سے مشرکوں نے افواہ اڑائی کہ محمد (ﷺ) کو اس کے اللہ نے چھوڑ دیا ان کے جواب میں یہ سورۃ نازل ہوئی ١٢ منہ اے نبی ( علیہ السلام) تو جو ان مخالفوں کی باتوں سے دل تنگ ہوتا ہے مانا کہ وہ باتیں ایسی ہیں کہ حلیم سے حلیم انسان بھی تنگ دل ہو مگر تو بہت بڑے حوصلے کا انسان ہے کیا ہم نے ایسی خدمت ثقیلہ کے تحمل کے لئے تیرا سینہ فراخ نہیں کیا بے شک کیا اسی شرح صدر ہی کا نتیجہ ہے۔ کہ تو حوصلہ کرتا ہے مگر ان کی بدزبانی اور طعن تشنیع چونکہ از حد فروں ہے اس لئے تیرے جیسا حلیم سلیم بھی گاہے ما ہے دل تنگ ہوجائے گو چاہیے نہیں کیونکہ تو ہماری طرف سے اس عہدہ پر مامور کیا گیا ہے اور ہم نے تجھ سے تیرا تبلیغی بوجھ بذریعہ اتباع ! کے ہلکا کردیا ہے جس نے تیری پیٹھ توڑی ہوئی تھی یعنی جب تو اکیلا تھا تو تبلیغی بوجھ تجھ اکیلے پر تھا اب جو چند باہمت افراد تیرے تابع ہوگئے ہیں تو تیرے کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور بٹائیں گے اور ہم نے تیرا ذکر بہت بلند کردیا ہے اذانوں میں نام نامی واسم گرامی بلند آواز سے لیا جائے گا اور مؤرخین کتب تاریخ میں تیرا نام بڑی عزت کے ساتھ دنیا کے مصلحین میں لکھیں گے یہ کیوں ہوا اس لئے کہ صبر کرنے کی حالت میں تنگی کے ساتھ آسانی ضرور ہوتی ہے بالضرور تنگی کے ساتھ آسانی ہے یہ الٰہی قانون ہے اس قانون کا ظہور تیرے حق میں بھی ضرور ہوگا پس جب تو اس فرض منصبی سے بکلی فارغ ہوجائے تو عبادت میں زیادہ محنت کیجئیو اور اپنے پروردگار کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجائیو کیونکہ اس وقت دنیا سے تیرے انتقال کا وقت آجائے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب امور الہٓی ہوئے تھے تو دعا کی تھی رب اشرح لی صدری یہ شرح صدر وہ وصف ہے جس کی بابت کہا گیا ہے۔ ؎ دریائے فراواں نشود تیرہ بسنگ عارف کہ برنجدتنک آب است ہنوز اور جو بعض روایات میں آیا ہے کہ لڑکپن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ مبارک چیرا گیا تھا وہ بھی دراصل اس شرح صدر کا پہلا زینہ ہے۔ اصل مقصود شرح موسوی ہے۔ فافہم سورۃ نصر میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے : اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔ (یعنی جب اللہ کی مدد آجائے گی اور تو اے رسول دیکھ لے گا کہ لوگ دین الہٓی میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں تو اس وقت اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھیو اور استغفار کیجئیو وہی بندوں پر نظر رحمت سے متوجہ ہونے والا ہے) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ سورۃ نصر میں اللہ نے اشارۃً فرمایا ہے کہ فتح کے بعد حضور (علیہ السلام) کا انتقال قریب ہے‘ (بخاری) چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہی مضمون آیت زیر تفسیر کا ہے یعنی جب تو تبلیغ کے اہم فرض کو پورا کرچکے تو ہمہ تن عبادت کے ذریعہ اللہ کی طرف لگ جائیو۔ ترجمہ شیعہ :۔ مولوی مقبول احمد صاحب شیعہ کے مترجم قرآن میں یوں لکھا ہے ” جب تم فارغ ہوچکو تو اپنا قائم مقام مقرر کردو “ مطلب آپ کا یہ ہے کہ خلافت کے لئے مقرر کرنے کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم الہٓی تھا چنانچہ آپ نے حضرت علی (رض) کو اپنا قائم مقام فرمایا۔ مگر اصحاب نے نہ مانا اور ان کے بعد اہل سنت کے تمام فرقوں نے اس تقرر کو تسلیم نہ کیا جو درحقیقت اللہ کے حکم سے رسول (علیہ السلام) نے فرمایا تھا اس لئے یہ لوگ ظالم ہیں اور لایَنَالُ عَھْدِی الظَّالِمِیْنَ کے تحت ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے : کہ واقعہ میں یہ نہیں ہوا اس امر کے سمجھنے کے لئے ہم ایک چھوٹی سی بات پیش کرتے ہیں۔ انصار مدینہ (رض) نے جب کہا کہ امیر ہم میں سے بھی ہوگا (مِنَّا اَمِیْرٌ وَّمِنْکُمْ اَمِیْرٌ) ان کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حدیث پیش کی اَلْاَئِمَّۃُ مِنَ الْقُرَیْشِ امیر قریش میں سے ہوگا چونکہ حدیث رسول (علیہ السلام) تھی سب نے تسلیم کی اور اپنا دعویٰ امارت چھوڑ دیا مگر اس کے مقابل کسی نے وہ حدیث پیش نہ کی جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب علی مرتضیٰ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا؟ اگر انصار سے بھول چوک ہوگئی تھی تو حضرت علی (رض) یا دیگر ارکان اہل بیت نے وہ حدیث کیوں نہ پیش کردی۔ مضمون صاف تھا کہ جناب ابوبکر آپ نے حدیث پیش کر کے انصار کو روکا ہے اب ایک حدیث فیصلہ رسالت کی سنا کر ہم آپ کو قائل کرتے ہیں۔ وہ حدیث یہ ہے کہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش میں سے حضرت علی (رض) کو قائم مقام اپنا مقرر فرمایا ہوا ہے جس کے آپ اور فلاں فلاں گواہ ہیں‘ حالانکہ اس کے پیش کرنے کا موقع تھا تاہم پیش نہیں کی کیونکہ اس مضمون کی کوئی حدیث نہیں ہے جس سے شیعہ کا دعویٰ ثابت ہوسکے اسی ایک ہی بات سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کا دعویٰ خلافت بلافصل ثابت نہیں۔ ہاں اہل السنت کا دعویٰ خلافت ابوبکر (رض) بلافصل کو قوت پہنچ سکتی ہے ملاحظہ ہو تفسیر سورۃ تحریم (ص ٨٠) جلد ہذا۔ منہ۔