قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا
تو کہہ میں تمہارے لئے برائی اور بھلائی (یعنی دکھ سکھ) کا اختیار نہیں رکھتا
ایسا نہ ہو کہ تیری امت ہی حسن عقیدہ سے تجھ ہی کو نفع نقصان رساں جان کر شرک میں مبتلا ہوجائے اس لئے تو ان کو کہہ کہ ہمیشہ کے لئے یہ خیال دل سے نکال دو کیونکہ یقینا میں تمہارے لئے کسی قسم کے ضرر یا فائدہ پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا خبردار اب یا آئندہ کو مجھ سے یہ امید نہ رکھنا کہ میں تم کو اولاد دے سکتا ہوں یا اور کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہوں یہ آئت اصل اصول توحید ہے اس لئے اس جگہ ایک مثال سے مسئلہ توحید سمجھانے کی ضرورت ہے جسکی صورت یہ ہے ہندوستان میں حکومت کا سلسلہ یہ ہے کہ سب سے اونچا حاکم وایسر اے ہے جو بادشاہ کا نائب ہے اس کے نیچے صوبوں کے گورنر ہیں۔ گورنروں کے نیچے کمشنر ہیں کمشنروں کے نیچے حکام ضلع ہیں حکام ضلع کے ماتحت تحصیلدار ہیں اس سارے سلسلہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ جس کام کا اختیار وایسراے کو نہو اسکے ماتحتوں میں اسکا اختیار سمجھنا سخت نادانی بلکہ وایسراے کی توہین ہے۔ ہم اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب مخلوق میں برتر اور برگزیدہ ہیں باقی اصحاب کبار اور اولیاکرام سب آپ کے ماتحت ہیں۔ پس اصول مذکورہ کے موافق ہمیں سوچنا چاہئے کہ جس صورت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بابت اعلان کردیں کہ مجھ میں مخلوق کو نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں تو آپکے ماتحتوں کو کب ہوگی پھر جو لوگ اولیاء اللہ کے حق میں گمان کرتے ہیں کہ وہ نفع رسانی یا دفع ضرر کی قوت رکھتے ہیں وہ دراصل غلط خیال ہی میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ ان کے اس خیال سے توہین انبیاء لازم آتی ہے کیونکہ جب آنحضرت جیسے اولو العزم نبی کو اختیار نہیں تو ماتحتوں کو کیا ہوگا پس کسی ولی اللہ کو مخاطب کر کے یہ کہنا امداد کن امداد کن از بندوں غم آزاد کن دردین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادر کسی طرح صحیح نہیں۔ ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ جو اختیار اللہ نے اپنے رسول برتر کو نہیں دیا وہ کسی ولی کو کیا ہوگا۔ اللہ اعلم۔ منہ