سورة القلم - آیت 17

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہم نے انہیں آزمایا ۔ جیسے باغ (ف 1) والوں کو آزمایا تھا ۔ جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح ہوتے ہی ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(17۔33) کچھ شک نہیں کہ ہم (اللہ) نے ان مشرکین عرب کو مال واسباب اور سامان آسائش وغیرہ دے کر اس طرح جانچا ہے جیسے ایک باغ والوں ! کو جانچا تھا۔ یعنی جس طرح اپنے چند روزہ عیش و آرام پر وہ مغرور ہوئے تھے اسی طرح یہ بھی مغرور ہیں سو جیسا ان کا انجام ہوا تھا ان کا بھی ہوگا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ان باغ والوں کی نیت تبدیل ہوئی تو خیرات نہ کرنے کی ان کو سوجھی اس پر ان کے باغ کی تباہی ہوئی یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب انہوں نے پختہ ارادہ کیا کہ کل صبح سویرے ہی اس باغ کے پھل توڑیں گے اور وہ اس ارادے میں کسی طرح کا استثناء نہ کرتے تھے یہاں تک کہ انشاء اللہ بھی نہ کہتے تھے ادھر انکا ارادہ ہوا ادھر اللہ کا حکم جاری ہوا تو ان کے سوتے سوتے ہی تیرے رب کی طرف سے تباہ کرنے والا حکم اس باغ پر پہنچ گیا پس وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی صبح کو برباد ہوچکا تھا مگر ان کو اطلاع نہ تھی پھر ان لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق صبح سویرے ایک دوسرے کو بلایا کہ اپنی کھیتی اور باغ میں چلو اگر اس کو کاٹنے کا ارادہ رکھتے ہو (ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ باغ یمن میں تھا ایک شخص دیندار اس کا مالک تھا اس کے مرنے کے بعد تین بیٹے وارث ہوئے مورث کی زندگی میں غربا مساکین کا بھی اس میں حصہ ہوتا تھا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے وارثوں نے خیرات کا حصہ بند کردیا۔ اس خیال سے کہ ہمارا عیال زیادہ ہے ہم اتنی خیرات کرنے کے متحمل نہیں چنانچہ اس خیال پر پختہ ہو کر صبح سویرے باغ کا پھل کاٹنے کو نکلے تو باغ کو اس حال میں پایا جس کا ذکر آیات میں ہے۔ (ماخوذازمعالم) تو یہی وقت موزوں ہے پس وہ اس خوف سے چھپ چھپ کر صبح سویرے چلے کہ اس باغ میں آج بھی کوئی مسکین تمہارے پاس نہ پہنچ جائے چنانچہ اسی خیال کو لے کر وہ صبح سویرے پھل کاٹنے کے لئے پختہ ارادہ اور قوت کے ساتھ نکلے وہاں کیا تھا وہم وگمان کے خلاف باغ اجڑ چکا تھا پس جب انہوں نے اس باغ کو اجڑا ہوا دیکھا تو اپنے تصور کے خلاف پاکر بولے کہ یہ تو وہ باغ نہیں ہے یقینا ہم راہ بھول گئے ہیں پھر ادھر ادھر دیکھ بھال کر کہا بھولے نہیں بلکہ ہم اس باغ کے فوائد سے محروم کئے گئے ہیں ان مالکوں میں اچھی سمجھ والا بولا کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ صبح سویرے اٹھتے ہوئے اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے یعنی اللہ کو پاکی سے یاد کر کے اس کی دی ہوئی نعمت کا شکر کرو تاکہ اللہ ہمارے مال اور اولاد میں برکت کرے دیکھو یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ ہم اس نعمت سے محروم کئے گئے ہیں چونکہ شریف خاندان کے صالح زادے تھے اس لئے اس یاددہانی پر فورا سب نے کہا سبحان اللہ ربنا وبحمدہ بے شک ہم ہی قصور وار ہیں چونکہ ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ ہمارے اعمال بد کا نتیجہ ہم کو ملا ہے اس لئے وہ ایک دوسرے پر متوجہ ہو کر شرمندہ کرنے لگے بولے ہائے ہماری کمبختی ہم تو واقعی سرکش ہیں سچ تو یہ ہے کہ ہر چہ برماست ازاست چونکہ دل سے ایماندار تھے اس لئے وہ اللہ سے ناامید نہ ہوئے تھے لہذا انہوں نے اللہ سے امید کا اظہار کرنے کو کہا انشاء اللہ بہت جلد اللہ ہم کو اس باغ سے بہت اچھا باغ دے گا کیونکہ ہم یقینا خدا کی طرف متوجہ اور رجوع ہیں یہ ان کا مقولہ بتا رہا ہے کہ وہ اللہ سے مایوس نہ ہوئے تھے اس لئے توقع ہے کہ اس باغ کے نقصان کی تلافی ان کے لئے اللہ کی طرف سے کی گئی ہوگی عذاب الٰہی جب آتا ہے تو اسی طرح آتا ہے اور عذاب آخرت اس سے بھی بڑا ہے یہ تو تھوڑا سا مالی نقصان ہے آخرت میں تو ہر طرح سے عذاب ہوگا کاش کہ لوگ اس عذاب کو جانیں