أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ
جہاں تم سکونت رکھتے ہو وہاں ان مطلقہ عورتوں کو اپنے مقدور کے مطابق مکان دو اور انہیں تنگ نے ضرر نہ پہنچاؤ اور اگر حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو ۔ یہاں کہ وہ پیٹ کا بچہ جن لیں پھر اگر وہ تمہاری خاطردودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدور اور موافقت رکھو آپس میں ساتھ اچھی طرح آپس میں ضد کرنے لگو ۔ تو دوسری عورت مرد کے کہنے سے دودھ پلائے گی
پس تم اللہ سے ڈر کر ان مطلقہ عورتوں کو اپنی مقدور کے موافق وہیں رکھا کرو جہاں تم خودرہتے ہو تاکہ تمہاری باہمی دیدہ بازی سے تمہاری رنجش دور ہو کر صلح ہوجائے ! اور تقاضائے انصاف یہ ہے کہ اپنے گھر میں رکھ کر ان کو تکلیف نہ دینا تاکہ ان کو تنگ کرو اور دیا ہوا مہر وغیرہ واپس وصول کرو یا وہ تنگ ہو کر نکل جائیں یہ سب مخفی راز اللہ کو معلوم ہیں کہ کون کس نیت سے کام کرتا ہے اور کون کس غرض سے ایک اور حکم بھی سنواگر وہ مطلقہ عورتیں حاملہ ہیں تو چاہے بسّہ طلاق مغلظہ ہوں تو بھی ان کے وضع حمل تک ان کو خرچ دیا کرو کیونکہ حمل کی وجہ سے ان کو تم سے ایک گونہ تعلق ہے اور وہ ایک طرح سے تمہاری خدمت میں مشغول ہیں پھر اگر وہ مطلقہ عورتیں تمہاری اولاد جو بعد طلاق یا قبل طلاق جنی ہیں دودھ پلائیں تو اس حال میں ان کی دودھ پلائی کی اجرت ان کو دیا کرو کیونکہ اولاد تمہاری نسل ہے اور وہ عورتیں ان کی خدمت میں مشغول ہیں اور باہمی مشورے کے ساتھ نیک دستور کے موافق کاربند ہوا کرو بچے کے حق میں جو کچھ مشورے سے پخت وپز ہو اس پر عمل کیا کرو اور اگر تم دونوں فریق۔ فریق زوج اور فریق زوجہ کسی وجہ سے بچے کو ماں کا دودھ پلانے میں مضائقہ سمجھو مثلا عورت کو کسی قسم کی بیماری ہے جس میں اس کا دودھ بچے کو مضر ہونے کا احتمال ہے یا عورت مطلقہ نے دوسرا نکاح کرلیا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے خاوند سے مشغول ہوگئی ہے غرض کسی معقول وجہ سے ماں کا دودھ بچے کو پلانے میں تم حرج سمجھو تو اس مرد کی ذمہ داری پر اس کے لئے کوئی اور عورت اس بچے کو دودھ پلا دے تاکہ وہ بچہ ضائع نہ ہو اَیْت یا یھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنات ثم طلقموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا (٣٢ پ ٣ ع) کی طرف اشارہ ہے۔ منہ ! یہ حکم ان مطلقات کیلئے ہے جن کو ایک یا دو طلاقیں ملی ہوں جنکے بعد عدت کے اندر اندر رجوع جائز ہے کیونکہ شروع سورت سے سیاق عبارت رجعی طلاق کے متعلق چلا آرہا ہے۔ مثلا یہ ارشاد ہے کہ لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا نیز ارشاد ہے فامسکوھن بمعروف وغیرہ پہلے ارشاد میں صلح کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے میں صاف لفظوں میں امساک (روک لینے) کی اجازت ہے۔ یہ تو مقررہ بات ہے کہ مطلقہ بسّہ طلاق ہونے کی صورت میں رجوع جائز نہیں ان قرائن صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم (نفقہ اور سکنی کا) مغلظہ بسّہ طلاق کو شامل نہیں رہا یہ سوال کہ مغلظ کیلئے کیا حکم ہے اس کا حکم حدیث فاطمہ بنت قیس (رض) میں ملتا ہے فاطمہ موصوفہ کو تین طلاق ہوئیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لئے نفقہ اور سُکْنٰی نہیں دلا یا تھا (صحیح مسلم باب للمطلق البائن لا نفقۃ لھا) منہ